مسلمان، گجراتیوں کے لیے ناقابلِ برداشت!
✍️شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
_____________________
کیا گجرات مسلمانوں کا نہیں ہے ؟ کیا گجرات میں کوئی مسلمان نہیں رہ سکتا ؟ کیا مسلمان گجراتیوں کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں ؟ اِن تینوں ہی سوالوں کا جواب ’ نفی ‘ میں ہونا چاہیے ، لیکن افسوس کہ گجرات کی حکومت اور وہاں کے کچھ گجراتی ہندوؤں کے رویے کی وجہ سے اِن سوالوں کے جواب ’ ہاں ‘ میں ملتے ہیں ۔ مغربی بنگال سے ، ترنمول کانگریس کے نو منتخب رکن پارلیمنٹ یوسف پٹھان کے ساتھ گجرات کی انتظامیہ نے جو رویہ اپنایا ہے ، اور ان کو جس طرح سے ہراساں کیا جا رہا ہے ، وہ افسوس ناک بھی ہے اور قابلِ مذمت بھی ۔ ہوا یہ ہے کہ ودودرا میونسپل کارپوریشن نے یوسف پٹھان کو ایک نوٹس بھیج کر اُن پر ایک پلاٹ پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے ! یہ الزام یوسف پٹھان کے الیکشن جیتنے کے بعد لگایا گیا ہے ، جس سے یہ صاف واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی کو ، جس کے تحت ودودرا میونسپل کارپوریشن ہے ، یوسف پٹھان کا ترنمول کانگریس سے جیتنا ایک آنکھ نہیں بھایا ہے ، اور وہ انتقام پر اتر آئی ہے ۔ یوسف پٹھان نے مارچ 2012 میں زمین الاٹ کرنے کی درخواست کی تھی ، اور اب ایک بی جے پی کارپوریٹر وجئے پوار کی طرف سے کارپوریشن کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں اس الزام اور مطالبے کے بعد کہ فلاں اراضی پر تجاوزات ہیں ، انہیں ہٹایا جائے ، کارپوریشن نے یوسف پٹھان کو ایک مکتوب بھیج کر مطلع کیا ہے کہ آپ کو 2014 میں ہی یہ جواب دے دیا گیا تھا کہ زمین الاٹ کرنے کی درخواست ریاستی حکومت نے مسترد کر دی ہے ، لہذا اس زمین پر بنے گھر کو دو ہفتے کے اندر خالی کر دیا جائے ، ورنہ اس پر بلڈوزر چلا دیا جائے گا ! اس پر ابھی یوسف پٹھان کا کوئی ردعمل نہیں آیا ہے ، لیکن 2012 اور پھر 2014 کے معاملات کو ، چاہے وہ جو رہے ہوں ، جس طرح اب 2024 میں گرم کیا جا رہا ہے ، اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ یہ معاملہ سیاسی انتقام کا ہے ، کچھ اور نہیں ۔ یوسف پٹھان گجرات کے ہی ہیں ، اور انہوں نے ایک انٹرنیشنل کرکٹ کھلاڑی کے طور پر ، اپنے چھوٹے بھائی عرفان پٹھان کے ساتھ ، ملک کا اور ملک کے ساتھ اپنی ریاست گجرات کا بھی ، نام روشن کیا ہے ، لیکن انہیں اس کے صلے میں یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ ان کی املاک پر بلڈوزر چلا دیا جائے گا ! یہ ہے فسطائیت کا ایک بھیانک چہرہ ! گجرات کی زمین کو مسلمانوں کے لیے تنگ سے تنگ کرنے کا معاملہ تو 2002 سے ہی شروع ہے ، تب انتہائی خوف ناک فسادات ہوئے تھے ، اور اب مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے کوئی نہ کوئی بہانا ڈھونڈ لیا جاتا ہے ۔ یوسف پٹھان کا ہی معاملہ نہیں ہے ، آج ہی گجرات سے ایک اور خبر آئی ہے ، ایک ہاؤسنگ سوسائٹی سے ، اور اتفاق سے یہ خبر بھی ودودرا سے ہی متعلق ہے ! ایک 44 سالہ مسلم خاتون کو ، جو سرکاری ملازمہ ہیں ، ایک ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک گھر الاٹ کیا گیا ، گھر کا الاٹ ہونا تھا کہ ایک ہنگامہ مچ گیا ! حکام کو تحریری درخواست لکھی گئی کہ ایک ’ مسلمان ‘ کو گھر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ساری سوسائٹی کو ’ خطرہ اور پریشانی ‘ کا سامنا ہے ۔ سوسائٹی 462 یونٹوں پر مشتمل ہے ، پہلے 33 مکینوں نے تحریری شکایت کی ، اور اب ساری سوسائٹی ، چند ایک کو چھوڑ کر ، مسلم خاتون کے خلاف شور و غل مچانے لگی ہے ۔ مسلم خاتون سوسائٹی کی واحد مسلم رہائشی ہے ، وہ اپنے بیٹے کے ساتھ الاٹ کیے گیے گھر میں رہنے کے لیے آئی ہے ۔ یوسف پٹھان اور سرکاری ملازمت کرنے والی مسلم خاتون کے اِن دو واقعات کی طرح کے مزید واقعات گجرات میں ہو چکے ہیں ، اور مسلمانوں کو پریشانیاں جھیلنی پڑی ہیں ، لیکن حکام اور حکمران اپنے لب سیئے ہوئے ہیں ! کئی سوال اٹھتے ہیں ؛ کیا گجرات صرف ایک مخصوص ذہنیت رکھنے والوں کی ریاست ہے ؟ اس سوال کو اس طرح بھی پوچھا جا سکتا ہے ، کیا گجرات کی زمین صرف کٹّر گجراتی ہندوؤں کے لیے ہے ، مسلمان وہاں کسی سوسائٹی میں اپنے ’ مسلمان ‘ ہونے کے سبب نہیں رہ سکتے ؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو گجرات کی حکومت اس کا باقاعدہ اعلان کر دے ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو سوسائٹی کے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرے ۔ اور یوسف پٹھان کے معاملہ میں انصاف کرے ۔ بھلا 2012 کے معاملے کو 2024 میں یعنی 12 سال بعد گرم کرنے ، اور اس کی بنیاد پر یوسف پٹھان کو ہراساں کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ ایک سوال مزید ہے ؛ گجرات کے بے شمار لوگ عرب ممالک میں برسر روزگار ہیں ، اگر انہیں مسلمانوں سے ایسی ہی نفرت ہے کہ وہ انہیں اپنی کالونی میں برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں ، تو وہ عرب ممالک میں کیسے مسلمانوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں ؟ وزیراعظم نریندر مودی کو ان دونوں واقعات پر اپنی زبان کھولنا چاہیے ، اور نتیش کمار و چندرا بابو نائیڈو کو بھی ، جو مودی کی حکومت کی بیساکھی بنے ہوئے ہیں ۔