Slide
Slide
Slide

ملک میں تین نئے فوجداری قانون کا نفاذ

✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

_________________________

انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) 1860، کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) 1898 اور انڈین ایویڈنس ایکٹ 1872 ایک جولائی 2024ء سے تاریخ کے صفحات میں دفن ہوگئے ہیں، ان کی جگہ بھارتیہ نیائے سنہیتا، بھارتیہ ناگرگ سورکچھا سنہیتا اور بھارتیہ ساکچھیہ ادھی نیم نے لے لیا ہے، یہ قانون پارلیامنٹ کے حزب مخالف کو بڑی تعداد میں معطل کرنے کے بعدبی جے پی کے موجود ارکان جن کی تعداد پارلیامنٹ میں اس دن دو سو ستر سے بھی کم تھی کے ذریعہ پاس کرالیا تھا اور 25/دسمبر2023ء کو صدر جمہوریہ نے اس پر اپنے دستخط کردیے تھے اور اب یکم جولائی سے مودی حکومت نے اس کا نفاذ کردیا ہے اور مختلف تھانوں میں پولیس، عوام اور عدالت سے جڑے افسران کو اس قانون سے واقف کرانے کا کام جاری ہے، ممکن ہے مرکزی حکومت اس قانون کو رائج کرنے کے لیے بجٹ میں کچھ رقم بھی مختص کرے، قدیم بھارتیہ نیائے سنہیتا قانون میں پانچ سو گیارہ(511) دفعات تھے، اب انہیں صرف تین سو چھپن (356)دفعات میں سمیٹا گیا ہے، ایک سو پچھتر (175) دفعات بدلے گیے ہیں، آٹھ (8)نئے دفعات جوڑے گیے اور بائیس (22)دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس کی وجہ سے دفعات کے نمبرات بھی بدلے ہیں، پہلے 302 دفعہ قتل کے لیے لگتا تھا، اب قتل کا اطلاق 103 دفعہ پر ہوگا، ارادہئ قتل کے لیے 307 متعارف تھا، اب اس کا اطلاق 109 پر ہوگا، غیر ارادی قتل کے لیے دفعہ 304 لگا یا جاتا تھا، اب 105 لگایا جائے گا، لاپرواہی کی وجہ سے موت کی صورت میں 304A لگتا تھا، اب 106 لگے گا، عصمت دری اور اجتماعی عصمت دری کو دفعہ 375,376 کے تحت نمٹایا جاتا تھا، اب اس کے لیے نئی دفعہ 63,64,70 ہوگی، ملک سے جنگ کے لیے 121, 121A موجود تھا، اب 147, 148 دفعہ کے تحت داروگیر ہوگی، ملک سے بغاوت کی دفعہ124A کو ختم کردیا گیا ہے اور اس کے بدلہ میں کوئی دفعہ نہیں رکھی گئی ہے، اسی طرح جہیز کے لیے، قتل جہیز کے لیے ہراساں کرنے، دھوکہ دھری، چوری، لوٹ ڈکیتی کے لیے پہلے قانون میں علی الترتیب 304B، 498A، 420، 379، 392 اور 395 دفعات تھیں، اب ان جرائم کے لیے علی الترتیب 80، 85، 318، 303، 309 اور 310 کا استعمال ہوگا، اس طرح چار سو بیسی کا محاورہ ختم ہوکر رہ جائےگا۔
اس قانون میں عورتوں اور بچوں سے متعلق جرائم اور سماجی مسائل سے نمٹنے کے لیے کئی طریقۂ کار کی وضاحت کی گئی ہے، اجتماعی عصمت دری کے سبھی معاملات میں بیس سال کی سزا ۓ عمر قید دی جاسکے گی، اگر عصمت دری اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکی کا کیا ہے تو سزائے موت دی جائے گی، اگر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی یا ہراسانی کا کام کیا گیا تو دس سال کی سزا ہوسکتی ہے، پہلے اس جرم میں زیادہ سے زیادہ سات سال کی سزا ہوا کرتی تھی، اس قانون میں ملکی بغاوت کے معاملہ کو حذف کرکے دہشت گردی کے دائرے میں لایا گیا ہے، اب اسلحہ کے ساتھ مخالفت, ملک کی سالمیت کو نقصان پہونچانے والی حرکتیں، ملک کی خود مختاری کے خلاف کوئی تحریک، سب دہشت گردی میں شامل ہوں گے اور سزا کے ساتھ ایسے لوگوں کی جائداد بھی ضبط کرلی جائے گی۔
جو بدلاؤ کیے گئے ہیں اس کی وجہ سے ہیڈ کانسٹیبل تک کو گرفتار کرنے اور عدالتی حراست کو تین ماہ تک بڑھائے جانے کو منظوری دی گئی ہے، پہلے یہ زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہوتا ہے، ضرورت پڑنے پر عدالت طے کرتی تھی کہ یہ مدت بڑھائی جائے یا نہیں۔
بھارتیہ ساکچھیہ ادھی نیم 2023“ میں پہلے قانون سے زیادہ دفعات ہوں گے، پہلے 167 دفعات تھے، اب 170 دفعات ہوں گے، اس قانون کے پانچ (5)دفعات کو کالعدم کر دیا گیا ہے، تئیس (23)دفعات میں تبدیلی کی گئی ہے اور ایک(01) نئی دفعہ جوڑی گئی ہے۔
سمن اور گرفتاری کا نوٹس سوشل میڈیا کے ذریعہ بھیجا جائے گا اور اس کی تعمیل کرنی ہوگی، قانون میں درج دستاویز کی تعریف میں توسیع کرکے الکٹرونکس، ڈیجیٹل رکارڈس، ای میل، سرور لاگس، کمپیوٹر، اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، ایس ایم ایس، ویب سائٹس، نیشنل اطلاعات، ڈیوائس پر دستیاب میل اور میسیج کو قانونی طورپر تسلیم کرلیا گیا ہے، ایف آئی آر، کیس ڈائری چارج شپ، فیصلہ تک کے سارے مراحل کو ڈیجیٹل کرنے کو قانونی شکل دیدی گئی ہے، تلاشی اور ضبطی کے وقت کی ویڈیو گرافی کو لازمی قرار دیا گیا ہے، اس کے بغیر کوئی چارج شپ قانونی طورپر قابل سماعت نہیں ہوگی۔
اس قانون کے تحت اگر عدالت کسی کو بھگوڑا قرار دیدے تواس کی غیر حاضری میں مقدمہ چل سکے گا اور سزا سنائی جاسکے گی اور اگر مجرم اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنا چاہتا ہے تو وہ دنیا کے جس خطے میں بھی چھپا ہوا ہے ہندوستانی قانون کے مطابق ہی اپیل کرنا ہوگا۔
جو لوگ پھانسی کی سزا کے مستحق ہوں ان کو عمر قید اور عمر قید کو کم از کم سات سال اور سات سال کی سزا کو تین سال میں بدلا جاسکے گا، چھوٹے معاملات ومقدمات کو سمری ٹرائل میں ڈالا جائے گا اور تین سال تک سزا والے جرائم سمری ٹرائل کے ذریعہ نمٹالیے جائیں گے، اس کی وجہ سے سیشن کورٹ میں چالیس فی صد سے زائد مقدمات کا بوجھ کم ہوگا۔
”تیسرا قانون بھارتیہ ناگرک سورکچھا سنہیتا 2023“ہے، اس قانون میں پانچ سو تنتیس دفعات ہیں، جن میں پرانے ایک سو ساٹھ (160) دفعات کو بدلا گیا ہے، نو (9)نئے دفعات جوڑے گئے ہیں اور نو(9) دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ہے، اس قانون میں ملزموں کو اہم سہولیات دی گئی ہیں۔
اس قانون کے تحت جرم کہیں بھی ہوا ہودوسری کسی جگہ ایف آئی آرکرنے کی سہولت دی گئی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایف آئی آر اپنے تھانہ حلقہ سے باہر بھی کیا جاسکتا ہے، اندراج کے بعد پندرہ دن کے اندر جس تھانہ کا معاملہ ہے اس کو بھیجنا ضروری ہوگا، اس قانون کے تحت ”ای“ ایف آئی آر بھی کیا جاسکے گا، ہر تھانہ میں ایک افسر نامزد کیا جائے گا، جو گرفتار شخص کے بارے میں آن لائن گرفتاری کی اطلاع متعلقہ خاندان کو دے گا۔ اور گرفتار شدہ شخص کو یہ سہولت ہوگی کہ وہ اپنے پسندیدہ شخص کو گرفتار کی اطلاع دے کر مدد لے سکے۔
ایف آئی آر کے نوے (90)دنوں کے اندر چارج شٹ داخل کرنا ہوگا، عدالت حالات کے مد نظر اس مدت کو نوے(90) دن اور بڑھا سکتی ہے، اس کا مطلب ہے کہ ایک سو اسی (180) دن کے اندر جانچ پوری کرلینی ہوگی اور ٹرائل کے لیے آگے بڑھا دینا ہوگا، چارج شٹ داخل ہونے کے سات (7)دنوں کے اندر عدالت کو الزام طے کرنے ہوں گے اور بحث پوری ہونے کے تیس (30)دنوں کے اندر اپنا فیصلہ سنا دینا ہوگا، فیصلہ سنانے کے صرف سات (7)دن کے اندر آن لائن فیصلہ مہیاکرانا ہوگا، فیصلے لمبی مدت تک ملتوی نہیں رکھے جاسکیں گے، سزا میں سات سال اور اس سے زیادہ والے جرائم کی فارنیسک جانچ لازم ہوگی، فارلنک ماہرین وقوعہ کی جگہ جاکر ثبوت وشواہد جمع کریں گے اور اسے رکارڈ کرلیں گے۔
اس قانون کے تحت کوئی بھی سرکار سات(7) سال یا اس سے زیادہ کی سزا والے مقدمات واپس نہیں لے سکے گی، سرکاری افسران اور پولس افسران پر ہونے والے مقدمات کی اجازت حکومت کو ایک سو بیس (120) دنوں کے اندر دینی ہوگی، اگر حکومت نے ایسا متعینہ مدت میں نہیں کیا تو اسے خاموش اجازت مان کر مقدمہ شروع کردیا جائے گا۔
ماب لنچنگ کو بھی اس قانون کے تحت جرم مانا گیا ہے، اس دفعہ کے تحت جب پانچ یا اس سے زیادہ اشخاص مل کر نسل، ذات، جماعت، جنس، جائے پیدائش،، زبان یا اسی قسم کے کسی دوسرے معاملہ میں کسی کا قتل کرتے ہیں تو ان میں سے ہر ایک کو سزائے موت، عمر قید یاکم از کم سات(7) سال قید کی سزا دی جاسکے گی، اس قانون میں ذہنی اذیت، خود کشی کے لیے اکسانے، صحت کو نقصان پہونچانے جیسے معاملات میں تین (3)سال کی سزا کی بات بھی کہی گئی ہے۔
ہندوستان میں ملک گیر سطح پر اس قانون کو نافذ کرنے کی بات کہی جارہی ہے، بلکہ نافذ کردیا گیا ہے، مگر اس کا نفاذ کئی اعتبار سے قابل غور ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح اس قانون کو پاس کرایا گیا وہ بی جے پی کے علاوہ کسی پارٹی کو قبول نہیں ہے۔
اس قسم کے قوانین ساتویں فہرست میں آتے ہیں، جس میں ریاستوں کو بھی اپنے علاقہ میں اس قانون کو بدلنے اور نئے قانون بنانے کا حق دیا گیا ہے، چنانچہ تامل ناڈو، مغربی بنگال اور کرناٹک جیسی کئی غیر بی جے پی حکومت والی ریاستوں نے اس کے نفاذ کی مخالفت کی ہے، یہ مخالفت اس لیے کار گر ہے کہ قانون کا نفاذ ریاستوں کی پولس کے ذریعہ ہوگا، اور ریاستی پولیس وہی کرے گی جو وہاں کی حکومت چاہے گی، اس لیے کہ سب جگہ کی پولیس دہلی کی طرح مرکزی حکومت کے تابع فرمان تو ہے نہیں، اس لیے بغیر ریاستی حکومت کی مدد کے ان قوانین پر عمل ممکن نہیں ہے۔
دوسری دشواری یہ ہے کہ تحقیق اور جانچ کے لیے جن وسائل کو قانونی حیثیت دی گئی ہے، وہ وسائل اکثر وبیشتر تھانوں میں موجود ہی نہیں ہیں اس تکنیک کی تربیت پولیس والوں کو نہیں ہے، اس لیے عدم واقفیت کی وجہ سے کئی موقعوں پر ”مارے گھٹنہ پھوٹے سر“ مصداق سامنے آئے گا۔
نئے قانون میں پولیس حراست کی مدت بڑھانے کی وجہ سے پولیس کے ذریعہ کیے جا رہے مظالم میں اضافہ ہوگا، جو معاملات ومقدمات یکم جولائی 2024ء سے قبل سے چل رہے ہیں ان پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوگا، اور وہ پہلے ہی کی طرح جاری رہیں گے، نئے قوانین میں جلد فیصلے پر زور دیا گیا ہے، عدالتیں نئے مقدمات کو نمٹانے میں لگ جائیں گی تو پرانے مقدمات التوا میں رہیں گے، عدالتوں میں پہلے سے پانچ اعشاریہ تیرہ (5ء13)) کروڑ مقدمات التوا میں ہیں جن میں (3.59)کروڑ یعنی 69.9فی صدی مقدمات فوجداری کے ہیں، ان مقدمات کا کیا ہوگا۔
آن لائن ایف آئی آر درج ہونے اور مدعی کو تھانے میں جسمانی طور پر حاضری سے الگ رکھنے کی وجہ سے ایف آئی آر کے اندراج میں تیزی آئے گی اور اس کا فائدہ اٹھا کر کئی لوگ غلط طریقے سے اپنے دشمن کو ٹھکانے لگانے میں سر گرم ہو جائیں گے، مقامی تھانے پر کام کا دباؤ بڑھے گا اور سیاسی دباؤ بھی فیصلہ بدلوانے میں اہم رول ادا کرے گا، سمری ٹرائل میں جلد فیصلے کی شکل تو بن سکتی ہے، لیکن متاثرین کو انصاف ملے گا، یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: