بھارت کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تنوعات کو ختم کرنے کی مہم
✍️ مولاناعبدالحمید نعمانی
____________________
ماہ ستمبر 2024 کے دوسرے ہفتے کے آغاز میں راہل گاندھی نے غیر ملکی دورے کے دوران امریکہ میں، آر ایس ایس کے حوالے سے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی، جس کی طرف ہم جیسے طالب علم تو بار بار ڈاکٹر امبیڈکر اور دیگر اہم شخصیات کے حوالے سے کہتے رہے ہیں، وہ نکتہ یہ ہے کہ بھارت متنوع تہذیبوں کا حامل ملک ہے، وہ آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق ہندوتو پر مبنی ایک واحد برہمن وادی تہذیب کا ملک نہیں ہے، پہلی شکل میں ملک فرقہ وارانہ ہم آہنگی بنی رہ کر ترقی و استحکام کی طرف گامزن رہے گا تو دوسری صورت میں ملک کے دیگر باشندوں اور مذہبی اکائیوں پر ایک واحد تہذیب و روایت کو لادنے کی کوشش کے تحت ملک فرقہ وارانہ تصادم کی راہ پر چلا جائے گا، ایسا مختلف مواقع پر بار بار ہوتا بھی رہا ہے ایک واحد واحد تہذیب و روایت کو پیش کر کے بھارت کو ایک مخصوص سمت میں لے جانے کی کوششیں تاریخ میں بارہا کی گئیں،ماضی میں مہاراشٹر، جنوبی ہند وغیرہ میں اور حال میں ہماچل، اتر کھنڈ، مدھیہ پردیش میں خاص طور سے، لیکن یہ کوششیں کامیاب ہوتے ہوتے ناکام ہو جاتی رہی ہیں، بھارت میں، صلیبی جھنڈے کے زیر سایہ اندلس میں ہوئے مسلم مخالف واقعہ کو دہرانے پر غور ہوتا رہا ہے، دیگر کو برداشت نہ کرنے کی ذہنیت، یورپ اسرائیل کی طرح بھارت میں بھی پروان چڑھانے کا سلسلہ جاری ہے ،اکثریت میں ہونے کا بہتر کردار نہ تو یورپ نے ادا کیا ہے اور نہ بھارت کے ہندوتو وادی عناصر ادا کر رہے ہیں، اس سلسلے میں سنگھ کے بیان کردہ سناتنی روایت اور عملی رویے میں بڑا تضاد و تصادم نظر آتا ہے، اس تعلق سے کئی پہلوؤں پر بحث و گفتگو کی ضرورت ہے، ہماری مسلم قیادت نے بھی اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی ہے، اس سلسلے میں ہندوتو وادی جارح عناصر اور عام ہندوؤں میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا ہے، ایک کی جارحیت اور دوسرے کی شرافت کو خلط ملط کر دیا جاتا ہے، بات کو سمجھنے کے لیے جنوبی ہند کی وجیانگر حکومت اور مراٹھ واڑہ میں پیشوا حکومت کے تحت ماضی میں جاری سرگرمیوں کا مطالعہ ضروری ہے، شیوا جی کی سرگرمیوں اور کوششوں میں فرقہ وارانہ نفرت، تقسیم و تفریق اور ہندو مسلم کا رنگ نہیں تھا، نہ مہا رانا پر تاپ کی جدوجہد میں، ہندوتو وادی رنگ دینے میں بعد کے برہمن ہندوتو وادی عناصر کا دخل ہے، ان کا شیوا جی کے ساتھ سلوک، تاریخ میں محفوظ ہے، پونے کے برہمن وادی پیشواؤں نے منصوبہ بند طریقے پر، مختلف ترکیبوں سے شیوا جی کے اصل فکر و کردار کو ڈگر سے اتار کر ایک الگ راستے پر لے جانے کا کام کیا، اس کے بعد پورے بھارت پر تسلط قائم کر کے اس میں مسلمانوں کے خلاف ایک الگ طرح کی تاریخ رقم کرنے کا پروگرام بنایا گیا، اس کا ریکارڈ، معاصر تحریر عماد السعادت میں درج ہے، لیکن یہ منصوبہ پانی پت کی تیسری جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی قیادت میں تقریبا پوری طرح ناکام ہو گیا ،رہی سہی کسر انگریزی غلبے نے پوری کر دی، بعد کے دنوں میں جیوتی با پھولے کی انگریزی غلبے کی تائید اور پیشواؤں کی مخالفت میں کئی راز مضمر ہیں، اس سے پہلے پیشواؤں کی طرح وجیانگر نگر حکومت کا خاتمہ، قطب شاہی، برید شاہی، عادل شاہی وغیرہ پانچ حکومتوں کے متحدہ محاذ کے ذریعے ہوا، شنکر آچاریہ جیسے ہندوتو وادی تفوق پسند مذہبی پیشواؤں کے لیے جنوبی ہند میں مسلم آبادی ناقابل برداشت تھی، جیسا کہ ملک کے کچھ حصوں میں ہو رہا ہے، ان کے بھکاوے اور بھڑکانے پر وجیانگر کی طاقت ور، وسیع سلطنت کے حکمراں رام راج نے فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر کے مسلم آبادی کو ختم کرنے کی کوشش کی، اسلامی و مسلم آثار، مساجد و مزارات کے انہدام ،قرآن مجید کو جلانے، بے ، ،خواتین کی عصمت دری کے علاوہ انتہائی متکبرانہ رویہ اختیار کیا، نتیجے میں متحدہ محاذ کے ہاتھوں تالیکوٹہ کے میدان میں وجیانگر نگر کا سورج غروب ہو گیا، مذکورہ پیشوا، وجیانگر، دونوں حکومتوں کو آر ایس ایس اور دیگر ہندوتو وادی عناصر کے حلقے میں آئیڈیل حکومت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے، اس سے ان کی سیاست سے الگ، صرف ثقافتی تنظیم ہونے کے دعوے کو سمجھا جا سکتا، ابھی حال فی الحال سنگھ کے سربراہ ڈاکٹر بھاگوت نے اشارے اشارے میں مغلوں کے خلاف، شیوا جی کے حوالے سے ایک خاص طرز حکومت اور نظام حیات کا ذکر کیا تھا، شیوا جی کے نام پر ہندو پد پادشاہی کے حوالے سے ہندو راشٹر میں کئ سارے مغالطے ہیں، معروف مورخ ڈاکٹر تارا چند نے لکھا ہے کہ مرہٹوں کے خلاف جنگ، مغلیہ سلطنت کے لیے ایک بار عظیم ثابت ہوئی لیکن ان کی بغاوت نہ ملکی تھی نہ مذہبی، فقط ایک قبیلے کی بغاوت تھی اور دوسرے قبائل کی بغاوت سے بہت مختلف نہ تھی، اس کا حوالہ شیخ محمد اکرام نے اپنی معروف کتاب رود کوثر میں بھی دیا ہے، اس سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بعد کے ہندوتو وادی عناصر اور آر ایس ایس نے شیوا جی کی جدوجہد کو کیا سے کیا بنا کر پیش کیا ہے، اس پر کئی پہلوؤں سے سوچنے اور بحث کی ضرورت ہے، ماضی میں گووند پانسرے، ڈاکٹر اکبر رحمانی، سید غازی الدین وغیرہ نے کئی امور پر روشنی ڈالی ہے، ڈاکٹر رام پنیانی بھی مختلف موضوعات کو سامنے لاتے رہتے ہیں، تاہم اردو ہندی، انگریزی، فارسی کے علاوہ بنگلہ، مراٹھی، کنڑ،ملیالم وغیرہ زبانیں جاننے والے اس طرح کے موضوعات پر بہتر کام کر سکتے ہیں، جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز وغیرہ سے وابستہ مختلف علاقوں کے اہل علم و تحقیق کئی تاریخی معاملے کو سامنے لا کر ان دائیں بازو کے ہندوتو وادی عناصر کی گمراہ کن باتوں کی حقیقت اجاگر کر سکتے ہیں، جو جارحانہ فرقہ پرستی کے تحت ملک کے سماجی تانے بانے کو درہم برہم کر کے فرقہ وارانہ اتحاد و ہم آہنگی اور تنوعات کو ختم کرنے میں لگے ہوئے ہیں، راہل گاندھی کے یہ کہنے پر کہ بھارت ایک واحد نظریہ نہیں بلکہ وہ متنوع افکار و روایات کا ملک ہے کو آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی کے زیر اثر، خود کو قابل، جانکار سمجھنے صحافی تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں، وہ آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق بھارت کو ایک واحد تہذیب والا ملک قرار دے رہے ہیں، 10/11 ستمبر کو کئی چینلز کے مباحثے میں اس پر گرما گرم بحثیں ہوئیں، بی جے پی، آر ایس ایس کی آئیڈیا لوجی سے وابستہ لیڈروں نے اصل موضوع پر دلائل سے بحث و گفتگو کرنے کے بجائے سیاسی نوعیت کی سطحی قسم کی باتیں کر کے سیاسی فوائد حاصل کرنے اور موضوع کے رخ کو دوسری طرف موڑنے کی کوشش کی، سیکولر صحافیوں اور دانش وروں کی طرف سے کمی یہ رہی کہ انہوں نے اس سلسلے میں ڈاکٹر امبیڈکر کا حوالہ نہیں دیا، ڈاکٹر امبیڈکر کی کتاب، Revolution and Counter _Revolution in Ancient India کے باب برہمن واد کی فتح میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں بھارتیہ سنسکرتی نام کی کوئی ایک سنسکرتی کہیں نہیں ہے کبھی تھی نہ اب ہے ،باہم متصادم سنسکرتیوں میں سے کسی ایک سنسکرتی کو ہندستانی سنسکرتی کیسے کہا جا سکتا ہے، کسی ایک سنسکرتی کو بھارتیہ سنسکرتی کا نام دے کر اس کو نمائندہ بنا کر تشہیر کرنا بالکل غیر مناسب ہے۔
ڈاکٹر امبیڈکر کے اس تبصرے و تحقیق سے آر ایس ایس اور دیگر ہندوتو وادی عناصر کی تعمیر کردہ تہذیبی عمارت منہدم ہو جاتی ہے، محنت کش عوام کے نمائندوں اور سیکولر دانش وروں کے ساتھ مسلم قائدین ونمائندوں کو بھی ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے، آج کی تاریخ میں آر ایس ایس اور بی جے پی وغیرہ کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کا انکار کوئی آسان کام نہیں ہے، دقت یہ ہے کہ میڈیا خصوصا مبینہ نیشنل الیکٹرانک میڈیا پر آر ایس ایس کی سوچ والوں کا قبضہ و کنٹرول ہے، وہ ٹی وی مباحثے میں ڈاکٹر رتن لال، لکشمن یادو، رام پنیانی جیسے دلت اور سیکولر دانش وروں کو شامل نہیں کیا جاتا ہے ، اس عدم توازن اور یک طرفہ عمل سے ہندستانی تنوعات کے کئی ضروری گوشے سماج کے سامنے نہیں آ پاتے ہیں، دلت، آدی واسیوں کے علاوہ سب سے زیادہ نشانے پر بھارت کے مسلمان ہیں، الگ الگ حربوں اور ترکیبوں، طریقوں سے ان پر حملے کر کے ان کو ناکارہ اور بے حیثیت کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں، ان کو بہت سے ہندو مسلم نام والے سنگھ حامی افراد الگ رنگ دے کر مسلم اقلیت اور اس کی قیادت کو ہی مورد الزام اور مطعون کرتے ہیں، اس کی کسی نہ کسی درجے میں مزاحمت کا سلسلہ بھی جاری ہے تاہم اسے اور زیادہ بہتر و موثر طریقے پر کرنے کی ضرورت ہے ،تمام مسلم تنظیموں خصوصا دونوں جمیعتہ علماء ہند، جماعت اسلامی ہند، ملی کونسل، وغیرہ کو باہمی تعاون و اشتراک سے کام کو آگے بڑھانا چاہیے، اس کی طرف ڈاکٹر محمد منظور عالم نے ابھی حال ہی میں توجہ مبذول کرائی ہے، جس وسیع پیمانے پر سرکاری، غیر سرکاری طور سے ہندوتو وادی تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہوئے فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھا کر اس کا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اس کی موثر مزاحمت کوئی ایک تنظیم، جماعت نہیں کر سکتی ہے، یہ بڑی حد تک صاف و ثابت ہو گیا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی طرف سے کچھ مبہم خوب صورت باتوں کا مقصد و مطلب اصل میں وہ نہیں ہے جو بہ ظاہر نظر آتا اور بتایا جاتا ہے، ہندو علاقے میں کسی مسلم کے مکان خریدنے اور کرایہ پر دینے پر ہنگامے سے پوری طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ ہندو اکثریت کے ایک بڑے موثر حصے میں کس قدر مسلم اقلیت کے خلاف نفرت و تنگ نظری ہے، اس سے اس کے مبینہ کشادہ قلبی و دماغی بے نقاب ہو جاتی ہے، اس حصے کا ہندو اکثریتی سماج سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے ہندوتو وادی عناصر پر تنقید و مخالفت نہ تو ہندو سماج کی مخالفت ہے اور نہ آر ایس ایس اور بی جے پی پر تنقید و مخالفت ،ملک کی مخالفت ہے، اس پہلو پر مختلف جہات سے تاریخی، سماجی اور تہذیبی تناظر میں تفصیلی بحث و گفتگو کر کے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور تنوعات کو سامنے لانے اور اس کے برخلاف کوششوں پر اجتماعی طور سے قدغن لگانے کی ضرورت ہے