صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؟
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ؟
از:سید احمد اُنیس ندوی
ان دنوں صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخاب کا مرحلہ درپیش ہے۔ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد بظاہر ایسی کوئی بھی شخصیت اب نظر نہیں آ رہی جس پر عوام و خواص سب کا اتفاق ہو جائے۔ چنانچہ کئ نام ہیں جو گردش میں ہیں۔ ملک کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ اس لیے ایسے وقت میں یہ انتخاب بہت اہم ہو گیا ہے۔ اگرچہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پچھلے چند سالوں میں عوام کے درمیان بورڈ کی مقبولیت اور اُس پر اعتماد و اعتبار میں بھی بڑی کمی واقع ہو گئ ہے, اور اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی آج بھی بورڈ ملت کا سب سے نمایاں متحدہ پلیٹ فارم ہے, اور اس کی آواز کا ایک وزن ہے۔
راقم سطور نے صدر بورڈ کے انتخاب کے حوالے سے کبھی باقاعدہ کچھ تحریر نہیں کیا۔ لیکن اس وقت صرف دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔ حالانکہ مجھے یہ معلوم ہے کہ یہ باتیں پہنچتی بھلے ہی سب تک ہیں, لیکن سب اپنے ہی لحاظ سے کام کرتے اور فیصلے لیتے ہیں۔ چونکہ بورڈ ملت کا ادارہ ہے, اس لیے ہم کو کم از کم اتنا اختیار تو ہونا ہی چاہیے کہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی رائے یا پسند کو پیش کر دیں۔
مجھے یہ لگتا ہے کہ بورڈ کا صدر کسی ایسی فعال اور سینیر شخصیت کو ہونا چاہیے جس نے بورڈ کے بانیان اور اولین ذمہ داروں کے ساتھ وقت گزارا ہو تاکہ وہ بورڈ کے نصب العین سے واقف ہو۔ جو خواص وعوام میں یکساں مقبول ہو تاکہ اس کے ذریعے بورڈ کا مشن اور پیغام سب تک پہنچ سکے۔ وہ علماء اور انٹیلکچول دونوں طبقوں کو انھی کے اسلوب میں تقریر و تحریر سے مخاطب بنانے کی صلاحیت رکھتا ہو, کیونکہ عام طور سے یہی دو طبقے بورڈ کے اولین مخاطب ہوتے ہیں۔ ہندی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتا ہو تاکہ احوال زمانہ سے براہ راست خود پوری طرح واقف رہے۔ وہ پہلے سے ہی کسی بڑی ذمہ داری کا بار اپنے کاندھوں پر نہ لیے ہو تاکہ وہ یکسوئی سے بورڈ کے لیے کچھ کام کر سکے۔ ملک میں بسنے والے مختلف طبقات کی اعلی قیادت سے اس کے براہ راست مراسم ہوں تاکہ ملک میں اچھی فضا قائم رکھنے کی کوشش بھی کر سکے۔ حکومت کے اعلی ذمہ داروں اور نمائندوں سے ملاقات کے موقع پر پوری جرات اور حکمت کے ساتھ اپنی بات پیش کر سکے۔ ملت اسلامیہ کے مختلف مکاتب فکر میں اس کو عزت و احترام حاصل ہو اور اس کے سینے میں پوری ملت کے لیے وسعت و کشادگی ہو تاکہ سب کو اس پر اتفاق ہو سکے۔ ساتھ ہی ساتھ اس کا ماضی اس کی گواہی دیتا ہو کہ اس نے ملک کے داخلی مسائل میں ملت کی جرأت مندانہ ترجمانی کی ہے اور عملی اقدامات کے ساتھ ساتھ اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے اُس نے باطل طاقتوں پر اور فسطائی نظام پر جرات مندانہ تنقید کی ہے اور تمام طبقوں خصوصا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف جری انداز سے اپنا احتجاج درج کرایا ہے تاکہ اس بنیاد پر مستقبل میں اُس سے اچھی امیدیں قائم کی جا سکیں۔ وہ حالات شناس بھی ہو اور اور مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہو, کیونکہ حکمت و ہمت کی جامعیت اس عہدے کے لیے اب ناگزیر ہے۔
یہ وہ خصوصیات ہیں جن کے ذریعے صدر بورڈ واقعی بورڈ کو پورے ملک کے لحاظ سے ملت کی ترجمانی کرتے ہوئے فعال و متحرک بنا سکتا ہے۔
اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ہر بڑا نام ان خوبیوں سے آراستہ ہو, اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی ایک میدان میں عبقری صلاحیت رکھنے والی کوئی شخصیت اس دوسرے میدان میں بھی عبقریت رکھتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسا شخص ان خصوصیات سے آراستہ ہو جس کا نام اور کام بظاہر دوسروں کے مقابلے میں چھوٹا نظر آتا ہو (یا چھوٹا دکھایا جاتا ہو), لیکن وہ اوپر مذکور تمام یا اکثر خصوصیات کا حامل ہو۔
چناچہ اگر واقعی بورڈ کو اسی طرح ماضی کی مقبولیت کے دور میں واپس لانا ہے اور ملت اسلامیہ ہندیہ کی ہمہ جہت رہنمائی کے لیے کچھ کرنا ہے تو یہ انتخاب واقعی بہت سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔ اگر اس انتخاب میں بھی محض بڑا نام یا جانشینی جیسے حالات بنے تو یہ انتہائی افسوسناک ہوگا۔ قرآن مجید نے تاکید کے ساتھ استحقاق کی بنیاد پر ذمہ داریاں تفویض کرنے کا حکم دیا ہے۔
اب یہ اراکین عاملہ کا امتحان ہے کہ وہ ہر قسم کے مفادات سے بالا تر ہو کر صرف ملک و ملت کی بھلائی کو سامنے رکھ کر لیاقت و استحقاق کی بنیاد پر انتخاب کرتے ہیں یا محض رسم کی ادائیگی ہوتی ہے اور بورڈ کو مزید غیر متحرک بنا کر انتہائی مخصوص دائرے میں سمیٹ دیا جاتا ہے۔
ماضی میں ہو سکتا ہے کہ بورڈ کے صدور کے حوالے سے مذکورہ بالا بعض خصوصیات کے فقدان کا ذکر کیا جائے, تو یاد رکھیے کہ پچھلے 9 سالوں میں ملک کا منظرنامہ جس طرح تبدیل ہوا ہے وہ کسی بھی صاحب نظر سے مخفی نہیں۔ ایسے میں ترجیحات کی تبدیلی یقینی طور پر ہونی چاہیے, یہی فطرت اور عقل کا تقاضہ ہے۔