Slide
Slide
Slide
وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جائے گا۔

وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جاۓ گا

از قلم:محمد عمر فراہی

ہم دنیا کی کوئی بھی زبان بولیں۔ رویوں کی اپنی ایک عالمی زبان ہوتی ہے ۔زبان آدمی کی پہچان کرواتی ہے کہ وہ کس ملک اور کس علاقے کا ہے لیکن رویے شخصیتوں کی پہچان کرواتے ہیں کہ وہ خاندانی ہے یا نہیں ۔خاندانی سے ہماری مراد ماں کی آغوش سے لیکر باپ کی نصیحت اور وہ معاشرہ ہے، جس میں ایک نسل مسلسل تربیت کے ادوار سے گزرتی ہے اور یہی تربیت اسے اپنے اسکول کالج سناج اور یونیورسٹی میں بھی منفرد بناتی ہے ۔معاشرہ صالح ہو گا تو نسلیں بھی صالح اور ذمہ دار ہوں گی ۔باقی بچہ اپنے شعور میں آنے کے بعد جو اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں اور کتابوں سے حاصل کرتا ہے یہ اس کی معلومات میں اضافہ تو کرتے ہیں لیکن ان کتابوں اور اسکولوں سے کلی طور پر اس کی تربیت نہیں ہوتی ۔ہاں اگر کسی اسکول کالج مکتب مدرسے  اور یونیورسٹیوں کے معاشرے میں بھی مساوات اور فحاشی سے پاک درس و تدریس اور تعلیم کا مضبوط نظام قائم ہو تو بہت سے بگڑے ہوے خاندان کے بچوں میں تبدیلی دیکھی جاسکتی ہے ۔بدقسمتی سے آج کے سرمایہ دارانہ مادہ پرستانہ دور کے مخلوط کلچر اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نہ صرف اس طرح کی تربیت کا فقدان ہے بہت سے رقص و سرور کے کلچرل پروگرام کے ذریعے کالجوں میں طلباء اور طالبات کو بے باک بھی بنایا جاتا ہے ۔جو کسی وجہ سے ایسے پروگراموں میں شریک نہ ہوں یا گریز کریں ،تو ان پر ط ۔ا۔ ل ب۔ا ۔ن۔ ی ذہنیت کا طنز بھی کسا جاتا ہے ۔

تربیت کے اسی فقدان کی وجہ سے تعلیم یافتہ نسلیں ایک معاشرے کو صحت مند بنانے کی بجاۓ اور بھی بیمار کر دیتی ہیں ۔تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام آۓ ہیں اور ان کے بعد اگر سماج میں امن و انصاف کی فضا قائم ہوئی ہے تو اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے اس وقت کے معاشرے پر غالب آنے والی برائیوں اور بدعنوانیوں پر نہ صرف توجہ دی ہے لوگوں کو روکا ہے نہ ماننے والی قوموں پر عذاب مسلط ہوا ہے ۔جہاں پر نبوی تحریک کے علمبردار اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے یا انہیں افراد میسر ہوۓ انہوں نے باطل طاقتوں سے سیاسی اختیارات چھینے اور ایک صالح معاشرے کی تشکیل دی ۔یہاں ہمارا کہنے مطلب بالکل صاف ہے کہ جب تک اللہ کے بندوں کو اختیارات حاصل نہ ہوں گے دوسروں کے اختیار میں ان کی نسلیں بدل دی جائیں گی جیسا کہ آج ہمارا حال ہے جہاں جمہوری معاشرے میں کچھ  بدعتوں اور برائیوں کو بڑھاوا دینے میں نہ صرف قانونی طور پر دباؤ بنایا جاتا ہے یا حوصلہ افزائی کی جارہی ہے دنیا کی جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں وہاں ہر جشن اور تفریح کے موقع پر زنا اور شراب کی محفلیں عام ہیں ۔

اب آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ غیروں کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے اہل دانش بھی جس طرح جذباتی باتیں کر کے جدید تعلیم کیلئے پاگل ہو رہے ہیں ہم خود اس تعلیم کے مخالف نہیں لیکن اس تعلیم سے پہلے اگر ایک پاک صاف تعلیمی ماحول  بنانے کی کوشش نہیں کی گئی تو آنے والی جو صورتحال ہے نہ صرف ہم اپنی نسلوں کی اس تعلیم پر فخر نہیں افسوس کریں گے آنے والی نسلیں اپنے اکابرین پر لعن طعن کریں گی ۔فتنہ ارتداد تو اپنی جگہ جسے اب روک پانا سیکولر ممالک کے مسلمانوں کے اختیار سے باہر ہے جدید اداروں سے فارغ خود مسلمان بچے اور بچیوں میں بھی گرل فرینڈ اور بواۓ فرینڈ کی لعنت عام ہو چکی ہے ان کی ایک بڑی تعداد آپس میں ہی نکاح سے پہلے ہی نکاح کے عمل سے گزر چکی ہوں گی اور پھر اس نسل پر کوئی عذاب تو نہیں آنے والا لیکن یہ خود اپنے لئے ہی عذاب بن چکی ہوں گی اور جب اسے احساس ہوگا تو ساٹھ ستر کی عمر کو پہنچ کر تلخ تجربات سے گزرتے ہوۓ بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ کیوں کہ اس نے جو درخت لگایا تھا اب اسے اس کا پھل کھانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہ ہو گا ۔ مگر وہ اس وقت تک دوسرے درخت بھی لگانے کے قابل ہوگی یا نہیں ۔کہا نہیں جاسکتا ۔کیوں کہ خدا کے علاوہ بھی ایک خفیہ طاقت اور ہے جو انسانی معاشرے کو جدید تعلیم کے نام پر فحاشی اور بدعنوانی کے دلدل میں ڈھکیل رہی ہے !اور وہ بہت ہی منظم طریقے سے دنیا کی مختلف جمہوری ریاستوں پر دباؤ بنا کر عالمی دجالی تعلیمی نصاب  کے اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہے ۔آئیندہ یہ مزید طاقتور ہوں گے کیوں کہ انہیں جانے انجانے طور پر ملت اسلامیہ کی جدید نسلوں کا بھی تعاون حاصل ہوگا ۔

بحث پھر آگے بڑھ جاۓ کی کہ یہ ہم کس ضعیف حدیث کے حوالے سے ایک غیر مرئی دجالی طاقت کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور قرآن میں تو اس کا تذکرہ ہی نہیں ہے ۔حالانکہ احادیث میں دور فتن کی جو اور بھی پیشن گوئیاں ہیں ہم تیزی کے ساتھ اس دلدل میں دھنستے جارہے ہیں ۔ان پیشن گوئیوں کا تعلق ہو سکتا ہے دجال سے نہ ہو کیوں کہ قرآن میں کہیں پر اس کردار کا ذکر نہیں ہے لیکن جو فحاشی کا فتنہ صاف نظر آرہا ہے قرآن میں ان فتنوں کو متعدد جگہوں پر تذکرہ آتا ہے اور سورہ اعراف میں اس فتنے سے آگاہ کیا جاتا ہے کہ ائے بنی آدم کہیں یہ پھر تمہاری شرم گاہوں کو تمہارے سامنے نہ کھول دے جیسے کہ اس نے آدم کے ساتھ کیا تھا ۔جس فتنے میں آدم مبتلا ہوکر نافرمانی کر بیٹھے دنیا کے مختلف فتنے بھی خوبصورت ہیں اور اسی خوبصورتی کا نام ترقی اور بلندی ہے ۔بس فرق یہ ہے کہ آدم علیہ السلام کو وقت سے پہلے توبہ کا موقع مل گیا اور اللہ نے ان کی رہنمائی کی کیوں کہ حضرت آدم نے شیطان کی سازشوں کی تاریخ نہیں بڑھی تھی ۔ہمیں تو ہمارے خدا نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی تاریخ اور دنیا کے اتھل پتھل سے آگاہ کر دیا ہے ۔اس کے باوجود ہم گمراہ ہوۓ تو قصوروار کون ہو گا ۔جب کہ ہم بہت کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی رہے ہیں ۔

وسیم بریلوی کے اس شعر سے ہم اپنی بات ختم کر رہے ہیں کہ

آنکھوں کو موند لینے سے خطرہ نہ جانے گا 

وہ دیکھنا پڑے گا جو دیکھا نہ جاۓ گا

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: