Slide
Slide
Slide
سیل رواں

بورڈ ، نئے صدر اور چیلنج

ڈاكٹر محمد مصطفی عبد القدوس ندوی،عمید كلیۃ البحث والتحقیق، جامعۃ العلوم گڑھا – گجرات

 آج سے تقریبًا پچاس سال پہلے  ۱۹۷۲ ء كی بات ہے كہ اس   وطن عزیر كی دھرتی پر   لے پالك كا  مسئلہ عام خاص لوگوں كا     موضوع سخن بنا ہوا تھا ، ایك طرف لے پالك  كو حقیقی بیٹے كا درجہ دینے پر اصرار تھا ، اور گود لینے والے كے تركہ میں  اس كو میراث  دلانے كی مہم شروع كی گئی، اور اس میں مسلمانوں كے بشمول تمام قوموں كو شامل كرنے كے لئے  ایك خصوصی بل مرتب كیاگیا ،  تو دوسری طرف  اسی قوت سے مخالفت بھی جاری تھی ، یہاں تك كہ حضرت مولانا منت اللہ رحمانی ؒ نے امارت شرعیہ بہار كی جانب سے مسلم پرسنل لاء  كانفرنس بلائی، یہ مسلم پرسنل لاء كے موضوع پر پہلا چند جماعتی اجلاس تھا، اس كے بعداسی سال  كے دسمبر  كے مہینہ میں عظیم الشان مسلم پر سنل لاء ممبئ كنونشن منعقد ہوا، جس میں مسلم پر سنل لاء بورڈ كی تشكیل كی تجویز منظور كی گئی، اس كے بعد اگلا اجلاس۱۹۷۳ء میں  حیدر آباد میں ہوا، جہاں باضابطہ بورڈ كی تشكیل عمل میں آئی،  اور اتفاق رائے سے حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ صدر منتخب ہوئےاور تحفظ شریعت اس كا اہم مقصد قراراپایا كہ جان ومال كی قربانی دی جاسكتی ہے ؛ لیكن دین وشریعت كے ایك نقطہ سے دستبرداری گوارا نہیں كی جاسكتی۔ یقینا اس راستہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ كو بڑی كا میابیاں ملی ہیں، ادھر ماضی قریب میں كئی موقعوں پر ناكامی سے دو چار ہونا پڑا؛ لیكن اس ناكامی میں اس كی طرف سے كوتاہی نہیں ہوئی بلكہ انصاف كا ذبح ہوا، جیسا كہ بعض سابق ریٹائر ڈ جج اپنے بیانات میں كہے ہیں : ” آپ سپریم كورٹ سے فیصلہ حاصل كرسكتے ہیں ، یہ ضروری نہیں ہے كہ آپ انصاف بھی حاصل كر سكیں“، اس كی واضح مثال بابری مسجد كا مقدمہ ہے ۔ ایسی صورت حال میں شریعت اسلامیہ كا حكم یہ ہے كہ ”جہاں تك ہوسكے جدوجہد كرو”، اور مسلم پرسنل لاء بورڈ اس   پر عمل پیرا ہے، جہاں تك ہوسكتا ہے حتی المقدور بورڈ تحفظ شریعت كا فریضہ انجام دے رہا ہے ، اور اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے  كہ مسلمانوں پر اپنی طاقت كے مطابق شریعت كو  بچانا واجب ہے ، اللہ تعالی  كا  ارشاد ہے :  {لایكلف اللہ نفسا الا وسعہا} [بقرہ: ۲۸۶[” اللہ كسی بھی شخص كو اس كی طاقت كے بہ قدر ہی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں “، یہ آیت اور اس جیسی دوسری آیتوں كی روشنی میں  فقہاء اصولیین نے یہ قاعدہ ذكر كیا ہے :  "لا تكلیف الا بمقدور ” ۔

  اس وقت ہم لوگ ایسے ملك میں رہتے ہیں ، جہاں پورے اسلام كو ہدف تنقید  بنانے بلكہ مٹانے كی ناپاك كوششیں چل رہی ہیں ، اور امت كو شریعت اسلامیہ سے رشتہ كو كاٹنے كی سازش  رچی  جا رہی ہے، پیغمبر عالم ﷺ پر ناپاك انگلیاں اٹھ رہی ہیں ، مسلمانوں كی تاریخ كو مسخ كرنے كی منظم مہم چل رہی ہے، دوسری طرف  زبردست تہذیبی یلغار كا مسلمانوں كو  سامنا ہے، ان پر مخصوص كلچر كو مسلط كرنے كی منظم كوششیں  كی جارہی ہیں ، جس كے لئے جہاں میڈیا كو خوب استعمال كیا جا رہا ہے، وہیں جدید تعلیمی پالیسی كے ذریعہ ان كے بنیادی عقائد پر بے حد خطرناك حملہ   ہوچكاہے، اس طرح بورڈ ہر چہار سو سے مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں كسی كے لئے مسلم  پرسنل لاء بورڈ   كی صدارت كا عہدہ كانٹوں كے اسٹیج سے كچھ كم نہیں؛ اس لئے  ایك ایسے نئے صدر كا انتخاب  موزوں تھا ، جو ایك طرف جہاں آزمودہ كار ہو، كہنہ مشق مدبر،بدلتے ہوئے حالات  كی نزاكتوں سے خوب واقف و آگاہ ہو، زمانہ شناس ہونے كے ساتھ ساتھ  ان میں سب  كو  ایك ساتھ لے كر چلنے كی صلاحیت ہو ، حكمت  ودانائی  كے ساتھ جرأت وبیباكی  ہو ، وہیں وہ علم شریعت میں گہرائی وگیرائی ركھتے ہوں، اسلامی قوانین كےماہر ہو ں؛ چنانچہ مقام شكر  وامتنان ہے كہ بورڈ كے صدارت كے لئے جس نابغۂ روز گار عظیم شخصیت حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت بركاتہم وعمت فیوضہم پر بورڈ كے اراكین  كی نظر انتخاب پڑی ،  ان میں یہ خوبیاں  بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں  بلكہ سچ بات  یہ ہے  كہ وہ اور بھی  كچھ  ہیں ، آپ عالی قدر ، مترجم ومفسر قرآن ، دور حاضر كے بالغ نظر ، صاحب بصیرت ، ممتاز عالم دین، مایۂ ناز فقیہ عصر،  ماہر شریعت،مقاصد شریعت  سے آگاہ ، نئے مسائل سے آگاہی میں  یكتا،  علم وتحقیق  اور فقہ واستنباط میں نمایاں  مقام  كے حامل ، نت نئے  پُر پیج سے پُر پیج مسائل كے شرعی حل پیش كرنے میں  اپنی مثال آپ ، دور حاضر كے افكار ونظریات  اور تصورات  سے خوب آگاہ،  زمانہ شناس ،نباض وقت،عصر حاضر سے   شریعت  اسلامیہ كی تطبیق میں یكتائے روز گار،محقق،اخاذ ذہن ، پیچیدہ سے  پیچیدہ بات  كو مرتب انداز میں  پیش   كرنے كی مہارت اورتفہیم كی اتھاہ صلاحیت كے حامل ،ایك نئے اسلوب و طرز نگارش كے مالك،  انشاء پرداز وادیب، قلم رواں ، علم بے كراں، خاموش دینی شاعر ، مردم سازی ، شخصیت سازی خاص  وصف كے حامل ،گوناگوں خوبیوں كا مالك ، كسر نفس وتحمل وبردباری، نرم لب ولہجہ، كم گم لیكن درست گو ، ہمہ گیر باكمال  شخصیت ،فكرو ونظر میں اعتدال  وتوازن، اعتدال پسند طبیعت، جذباتیت  ومغلوبیت ا ورمرعوبیت سےعاری، امت مسلمہ كے لئے ایك تڑپتا  ہوا دل ،مسلمانوں كی شیرازہ بندی  و اتحادكے حامی  اور كوشاں، آپ ایسے خطیب ہیں جو سامعین كے دل ودماغ كو فتح كرلیتے ہیں ،  آپ ایسے انشاء پرداز  ہیں جن كی زبان كی حلاوت وشیرینی اور تعبیر وبیان كی سلاست وروانی  عوام وخواص دونوں ہی طبقے كو یكساں متاثر كرتی ہے اور بسا اوقات اپنا گرویدہ بنالیتی ہے ۔  حضرت مولانا مصطفی مفتاحی ؒ نے منظوم كلام میں  سچ كہا :

سرمایۂ   خطابت    وسحبان    باوقار                                         

تحریر كے دھنی ہیں ، بلاغت كے شہسوار

آپ والا كی ”آسان تفسیر “ اور” آسان اصول تفسیر“ كے قارئین بخوبی اندازہ كر سكتے ہیں كہ  ماشاء اللہ آپ كو  تفسیر قرآن  اور اصول تفسیر پر  بھی گہری نظر ہے ؛ بلكہ آپ كو اس پر  پورا عبور حاصل ہے،آپ  كی كتاب  ”قاموس الفقہ “ میں  بھی  ا س كی جھلك محسوس كی جاسكتی  ہے ،آپ كو دقیق علمی اور فقہی مسائل اور مضامین كو انتہائی سلیس اور عام فہم زبان میں كہنے اور لكھنے كا خاص ملكہ قدرت نے عطا فرمایا ہے ۔

اسلام اور پیغمبر عالم ﷺ پر اعتراضات اور تنقیدوں كا جواب بڑی خوش اسلوبی سے تشفی بخش دینے كا اچھا ملكہ ركھتے ہیں، آپ كا انداز ایسا انوكھا اور دلكش ہوتا ہے  كہ سامنے والا  اس سے متاثر ہوئے بغیر  رہ نہیں سكتا ،  بڑی سنجیدگی  ومتانت كے ساتھ اور جذباتی  ہوئے بغیر فریق مخالف كا جواب دینے كا اچھا سلیقہ ركھتے ہیں ، جس كی زندہ مثالیں  “۲۴ / آیتیں ” كتابچہ  اور  “پیغمبر عالم ﷺ”ہیں  ۔ 

ویسے تو آپ ہرفن مولا  اور ہر میدان كے شہسوار نظر آتے ہیں  ،اسلامی علوم كا   شاید ہی كوئی  ایسا فن بچا ہوگا جس میں آپ والا كی تصنیف نہ ہو ، ؛ تاہم جس فن  نے آپ كو اپنے معاصرین علماء كے درمیان ممتاز كرتا ہے ، جو آپ كی ایك طرح كی پہچان بن چكا ہے، اورجو آپ كی شہرت ومقبولیت كا خاص سبب بنا ہے، وہ ہے فقہ وفتاوی، ان میں بھی خصوصیت كے ساتھ نئے مسائل كے حل كا عجب ملكہ    اللہ  نے آپ كو عطا كیا ہے ، جس  كا اعتراف اصاغر كو تو ہے ہی  اكابر علماء بھی معترف ہیں، جس كی وجہ سے آپ والا كا لقب ”فقیہ عصر“ پڑا۔

آپ حضرت والا سابق صدر  مرشد الامت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی ؒ كی طرح نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو  ، شیریں زبانی، خندہ پیشانی،طبیعت میں  لینت وملاطفت ،تواضع وانكساری  اور فروتنی كے پیكر  ہیں، جیسا كہ خود ان كے بورڈ  كے صدر منتخب ہونے كے بعد  انہوں نے جو شركاء جلسہ كے سامنے جو خطاب فرمایا، سے انداز ہ ہوتا ہے ، انہوں نے فرمایا: 

” حضرات! میں اس موقع پر عرض كرنا چاہتا ہوں كہ مجھ سے پہلے بورڈ كی قیادت جن بزرگوں نے كی ہے ، وہ علم وفضل و ورع وتقوی اور بصیرت كے اعتبار  سے بہت بڑھے ہوئے تھے، ان كا  اس عہدہ پر فائز ہونا استحقاق كی بنا پر تھا؛ لیكن مجھ سے اس ذمہ داری كا متعلق ہونا محض ایك اتفاق ہے ؛ چونكہ اب بڑے حضرات نہیں رہے توا یك كو تاہ علم اور كوتاہ عمل شخصیت سے یہ ذمہ داری متعلق كردی گئی؛ كیونكہ عربی زبان كا محاورہ ہےكہ ”بڑوں كی موت چھوٹوں كو بھی بڑا بنا دیتی ہے“، میرے انتخاب كی نوعیت یہی ہے؛ لیكن یہ ذمہ داری آپ ہی حضرات نے مجھ سے متعلق كی ہے ؛ اس لئے میں امید ركھتا ہوں كہ بورڈ كو آپ كا بھر پور تعاون حاصل رہےگا، آپ  لوگ دعا فرمائیں كہ اللہ تعالی مجھے آپ كی طرف سے حوالہ كی ہوئی اس ذمہ داری كو صحیح طور پر انجام دینے كی توفیق عطا فرمائے، اپنی مرضیات پر قائم ركھے اور تكبر وریا سے یچائے “ ( روز نامہ منصف اخبار حیدر آباد ، مینارۂ نور،  ۱۶ / جون ۲۰۲۳ء)، آمین ثم آمین۔

آپ حضرت والا ایك كامیاب  منتظم ومدبر اور اصابت رائے میں اپنی مثال  آپ  ہیں  ، كہنہ مشق تجربہ كار قائد ،یہی وجہ ہے  كہ ایك لمیے عرصہ سے كتنے اداروں كے ركن  اور سرپرست رہے ہیں ؛ چنانچہ جیسا كہ حضرت مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی (نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڑیسہ وجھار كھنڈ) لكھا ہے ( تھوڑی سی تبدیلی  واضافہ كے ساتھ  )ملاحظ ہو:

 امارت شرعیہ کی مجلس شوریٰ وارباب حل عقد کے رکن، المعھدالعالی امارت شرعیہ کے ٹرسٹی اور رکن اساسی، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سابق  جنرل سکریٹری  اور حال صدر، اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے جنرل سکریٹری ،  مجلس تحفظ  ختم نبوت تلنگانہ وآندھراپردیش  كے جنرل سكریٹری، آل انڈیا ملی كونسل تلنگانہ وآندھراپردیش كے صدر، اسی طرح جامعہ عائشہ نسواں حیدرآباد ، تاسیس شریعہ بورڈ ممبئ  اور رہبر اسلامك فائنانس  بنگلور كے صدر، مسلم مجلس مشاورت دہلی اورمجلس عاملہ تلنگانہ وآندھراپردیش كے ركن عاملہ، امارت ملت اسلامیہ آندھرا پردیش کے قاضی شریعت ، مجمع الفقہ الاسلامی مکہ مکرمہ ،مجلس علمی دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد ،مجلس منتظمہ و مجلس نظامت ندوۃ العلماء لکھنؤ ، مجلس مشاورت دارالعلوم وقف دیوبند، الاتحاد العالمی لعلماء المسلمین قطراوررابطہ علماء اہل سنت والجماعت بحرین کے رکن، حضرت مولانامحمد سالم صاحبؒ ، حضرت مولانا سید محمدرابع حسنی ندویؒ، مولانامنیر احمد مظاہری اور مولانامحمد یونس پالن پوری ادام اللہ فیوضہم کے خلیفہ و مجاز، درجنوں ملی، تعلیمی، تحقیقی اداروں کے ذمہ دار، دارالعلوم سبیل السلام حید ر آباد کے سابق شیخ الحدیث ، المعھد العالی الاسلامی حید آباد ، دارالعلوم  سبیل الفلا ح ومدرسہ الفالحات جالے  دربھنگہ (بہار) کے بانی وناظم، منتظم اور مدبر ، ہندوستان کی کوئی قابل ذکر تنظیم ایسی نہیں ہے، جس سے کسی نہ کسی حیثیت سے آپ کی وابستگی نہ ہو، ستر سے زائد قرآن وحدیث، فقہ  وفتاوی،اصول تفسیر  وحدیث  اورفقہ ،علم كلام ،سیرت پاك ﷺ، تاریخ، دعوت ،تذکرہ،  اسلام وپیغمبر عالم ﷺ پر اعتراضات  كے جوابات ، سیرت وسوانح ،سفرنامہ،تقابل ادیان اور فکری ،اصلاحی ، تذکیری موضوعات پر عربی، اردو اور انگریزی کتابوں کے مصنف ،علمی رسوخ، تفقہ فی الدین اور معتدل فکرونظر کے حامل، سب کے کام آنے والے اور سب کے لیے وقت نکالنے والےفقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت بركاتہم۔”قائم جن کے دم سے ہے محفلوں کی تابانی“ ۔

توسلامت رہے ہزار برس

ہربرس کے ہوں دن ہزار

جیسا كہ سب كو معلوم ہے كہ آل انڈیا مسلم  پرسنل لا ءبورڈ  كے  ۲۸ واں اجلاس میں بورڈ كےتمام اراكین كے اتفاق رائےسے فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت بركاتہم كو پانچواں صدر منتخب كر لیا گیا۔ یہ بات كسی سے مخفی نہیں ہے كہ مسلم  پرسنل لا بورڈ وحدت امت ہندیہ  كا واحد پلیٹ فارم ہے ، ملت كی شیرازہ بندی كی علامت ونشان ہے ، اور اس میں كوئی شك نہیں ہے كہ اس ملك میں ایك باعزت قوم اور سربلند امت كی طرح زندگی گذارنے كے لئے اتحاد ضروری ہے،مسلم پرسنل لا بورڈ بزرگوں  كی مشتركہ امانت ہے، جس مین دیوبندی ، بریلوی ، حنفی ، شافعی، سنی ، شیعہ تمام بزرگوں كا خون جگر شامل ہے ،  اور ملت اسلامیہ كی تمام تنظیموں نے اس شجر طوبی  كو  آبیار ی كرنے میں اپنا حصہ ادا كیا ہے، اس كی حفاظت كرنا اس كو آگے بڑھانا اور اس كو تقویت پہنچانا ہم سب كی ذمہ داری ہے ، اگر ہم سے  اس میں كوتاہی ہوئی اور خدانخواستہ اس كی ساكھ متأثر ہوئی تو ہم اللہ تعالی كے یہاں باز پرس سے بچ نہین سكیں گے(روزنامہ منصف اخبار، مینارۂ نور، ۱۶ / جون ۲۰۲۳ء)؛ پس ہم  مسلمانوں كی ذمہ داری  ہےكہ ہم  اپنے آپسی انتشار وخلفشار كو چھوڑ كر، مسلكی تعصب اور فرقہ وارانہ تشدد سے اوپر اٹھ  كر اپنی قیادت پر بھروسہ كریں، اگر كہیں فروگذاشت ہو تو فورًا آپے سے  باہر نہ ہوں بلكہ سنجیدگی سے اس كے تدارك كے لئے مثبت انداز میں آگے بڑھیں، جیسا كہ بانیان بورڈ  ہمارے بزرگوں نےدین كے تحفظ كی خاطراور مسلمانوں كے اس اتحاد كی تشكیل كے لئے اپنی اَنا كو قربان كیا اور تحفظ شریعت كے اس كارواں كو آگے بڑھاتے ہوئے ہم تك  پہنچایا ، اسی طرح ہماری  بھی ذمہ داری بنتی ہے كہ ہم بھی اسی  طرح اس    متحدہ كارواں كو  بغیر كسی انتشار واختلاف كےآگے بڑھائیں  ۔  اللہ تعالی اس شجر طوبی كو صدا بہار سبز وشاداب ركھے،  اس پر موسم خزاں كا گذر نہ ہونے دے۔

بورڈ اپنے قیام كے دن سے ہی چیلنج كا سامنا كرتا ہوا آرہا ہے ،  حقیقت یہی ہے كہ اس كے قیام  كا پس منظر زمانہ وحالات كے ہرطرح كے چیلنج  كا مقابلہ كرنا  اور امت مسلمہ  كی رہنمائی كرنا ہے ، اس وقت یقینا ایك بڑا اور سنگین چیلنج یكساں سول كوڈ  ہے، جس كے نفاذ  كا مطلب مسلم پرسنل لاء بورڈ  كے وجود  كا خاتمہ ہے ،   اس نئے طوفان سے نبردآزما ہونا اور مقابلہ كرنا  عالی قدر نئے صدر اور دیگر نو منتخب ذمہ داران كے لئے ایك بڑی آزمائش اور امتحان سے كچھ كم نہیں ہے ، الحمد للہ بڑی قوت سے اس كامقابلہ جاری ہے ، اللہ تعالی  ان حضرات كی مدد فرمائے اور انہیں بلند حوصلہ عطا فرمائے اور پوری امت مسلمہ ہندیہ كی غیبی نصرت فرمائے اورتاقیامت اس سرزین پر اللہ اور اس كے رسولﷺ كی گونج باقی ركھے اور مسلمانوں كے لئے شریعت پر عمل پیرا ہونا آسان رہے اورعمل كے لئے ماحول سازگار رہے ، آمین ثم آمین۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: