تحریر: مسعودجاوید
دادا کی موجودگی میں پوتے پوتیوں کے حقوق :نہ جانے کس نے یہ مسئلہ عام کر دیا ہے کہ دادا کی موجودگی میں اگر باپ کا انتقال ہو جائے تو اس کی بیوہ اور یتیم بچے وراثت سے محروم ہو جاتے ہیں ! کیا واقعی اسلام ایسے ظلم وزیادتی کو روا رکھتا ہے ؟ قطعاً نہیں ۔ وہ محروم نہیں ہوتے ہیں ان کے حقوق محجوب ہو جاتے ہیں کہ ایسی صورت میں یعنی دادا کی موجودگی میں باپ کی وفات ہو جائے تو بیوہ اور یتیم بچے محروم نہیں محجوب ہو جاتے ہیں یعنی متوفی باپ کا حصہ کے مالک بیوہ اور یتیموں کو نہیں بنایا جائے گا ۔ اس کے حصہ کی رقم سے دادا ان کی کفالت کرے گا اور دادا کی وفات کے بعد چچا کفالت کرے گا ۔ یعنی بحیثیت گارجین متوفی کے مال و جائیداد کی دیکھ ریکھ کرے گا اور اسی متوفی کی رقم سے متوفی کی بیوی بچے کی کفالت کرے گا ۔ اور اس میں خرد برد نہیں کرے گا اسی لئے اللہ نے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یتیم کے مال کھانے پر سخت وعید کا ذکر کیا ہے۔
محجوب اور محروم کے فرق سے عوام کو با خبر نہیں کرنے کا نتیجہ ہے کہ کتنی بیوائیں اور یتیم بچے ان گنت مسائل سے دوچار ہیں۔ کیا ہم نے ان کے شرعی حقوق سے عوام کو با خبر کیا ہے ! اگر کیا ہوتا تو بدنیت لوگ محجوب کو محروم نہیں بناتے۔
اسلام میں مرد ہو یا عورت کسی کے لئے مجرد یعنی بغیر عذر اکیلی زندگی کو ناپسند کیا گیا ہے۔ کوئی عورت اگر بیوہ ہو گئی تو دوسری شادی کر لے۔ عرب ممالک میں یہ عام ہے۔ ہمارے یہاں برصغیر ہند ہندوستان،پاکستان اور بنگلہ دیش میں بیوہ اور مطلقہ سے شادی کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
اللہ نے وراثت کی تقسیم جو بتایا ہے کہ باپ کے ترکہ میں ( اس کا قرض ادا کرنے کے بعد اور اس کی 1/3 وصیت ادا کرنے کے بعد) جو مال و جائیداد ہے اس میں فلاں فلاں کا حق ہے۔ اسی کے تحت اللہ نے کہا ہے کہ بیٹے کا جتنا شیئر بنتا ہے اس کا نصف بیٹی کو ملے گا۔ مساوات کے نام پر اللہ کے اس حکم کی نافرمانی کی تائید نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس تقسیم پر کسی قسم کا کوئی جبر نہیں ہے جسے ماننا ہے مانے جسے نہیں ماننا ہے وہ نہ مانے۔
اللہ اپنے بندوں کے تئیں ستر ماؤں سے زیادہ مہربان ہے۔ اس کی حکمت کو ہم اپنی محدود عقل سے نعوذباللہ موازنہ نہیں کر سکتے ہیں ۔ بیٹے کے اوپر اس کے کنبہ کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں وہ بیٹیوں پر نہیں ہوتی ہیں ۔ والدین کی دیکھ ریکھ ؛کھانا, کپڑا اور علاج وغیرہ اور اس کی اپنی فیملی کے اخراجات بیٹوں کے ذمہ ہوتے ہیں بیٹیوں پر نہیں ۔اس کے علاوہ بہنوں کی شادی (جہیز لعنت ہی سہی مگر برصغیر میں خوب رائج ہے والد کی غیر موجودگی میں یہ بھائیوں کی ذمہ داری ہوتی ہے)۔ بیٹوں پر ان تمام ذمہ داریوں اور بیٹیوں پر کوئی ذمہ داری نہیں کے باوجود بیٹے کا نصف حصہ اللہ نے بیٹیوں کے لئے مقرر کیا ہے۔ قال الله في القرآن الكريم : ” يوصيكم الله في أولادكم للذكر مثل حظ الأنثيين ) یعنی دو بیٹی کے حق کے برابر ایک بیٹے کو۔
اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں باپ کا ترکہ صرف بیٹوں میں تقسیم ہوتا تھا ۔ یہ اسلام کی دین ہے کہ اس نے بیٹیوں کا بھی حصہ مقرر کیا ہے۔
لیکن اللہ نے قرآن کریم میں بیٹیوں کے لئے ترکہ یعنی متوفی باپ کی چھوڑی ہوئی جائداد میں جو حق مقرر کیا ہے اسے کتنے لوگ دیتے ہیں ۔ میں نے دیکھا ہے نہ صرف عوام بلکہ خواص بڑے بڑے عالم فاضل اور دانشور بھی دانستہ یہ حقوق ادا نہیں کرتے ہیں۔ خواتین کی ذہنی تربیت بھی ایسی ہوتی ہے یا ان میں جو رواداری ہوتی ہے اس کی وجہ سے گھر کی بات باہر عوام میں وہ شکایت کرتی ہیں اور نہ عدالت میں مقدمہ دائر کرنے کے حق میں ہوتی ہیں کہ مبادا ان کا میکہ نہ چھوٹ جائے۔
ایک مجلس میں یعنی بیک وقت تین طلاق بنیادی طور پر کم علمی اور جہالت کی دین ہے ۔ بہت سے علماء اس کی نکیر تو کرتے ہیں مگر اس روش کو روکنے کے لئے کوئی میکانزم، تربیت اور اصلاح معاشرہ کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔۔۔۔ میاں بیوی میں ناچاقی بلا تفریق مذہب ، ملک اور علاقہ فطری ہے۔ لیکن طلاق کا قرآنی طریقہ اختیار کرنے سے یہ نوبت شاذ و نادر آئے اس لئے کہ اس میں کولنگ پریڈ پر زور دیا گیا ہے۔ طلاق اگر اس کی وجہ ‘خیانت’ نہ ہو تو عموماً غصہ میں اٹھایا گیا قدم ہوتا ہے۔ اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ :
- 1- رنجش ہو تو بستر علحدہ کر لیں ۔ میاں بیوی کا ایک ہی گھر میں الگ الگ سونے کی کسک دونوں کو یا دو میں سے کسی ایک کو غلطی کا احساس دلائے گی اور معاملہ رفع دفع ہو جائے گا ۔
- 2- اگر اس سے بات نہیں بنی تو دونوں اپنے بڑوں( گارجین) کو بلائیں وہ دونوں کی بات سن کر جس کی غلطی ہو اسے تنبیہ کر کے معاملہ رفع دفع کرائیں ۔
- 3- پھر بھی بات نہیں بنی ان کے واپس جانے کے بعد بھی انہوں نے رویہ نہیں بدلا تو شوہر بیوی کی طہارت کی حالت میں ایک طلاق دے۔ طہارت کی حالت اس لئے ہے کہ اگر جنسی کشش ہوئی تو میاں بیوی کو یا بیوی میاں کو مسکرا کر دیکھ لے یا چھو لے بس کیا ہے سارے گلے شکوے دور اور پھر سے شیر و شکر ہو گئے پھر سے نکاح کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔
اسی طرح دیگر مسائل ہیں جو اصلاح طلب ہیں ۔ کاش مساجد کے منبر ومحراب سے اور اصلاح معاشرہ کے جلسوں میں نماز روزہ زکوٰۃ جنت جہنم کی طرح ان اہم موضوعات پر بھی بیان ہوتا !