✍ ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
محرم الحرام کا آغاز ہے، نئے ہجری سال کی ابتدا ہے، تاریخ کا ایک باب لکھا جا چکا جبکہ ایک نئے باب کا اضافہ ہونے والا ہے، در اصل تاریخ میں ہجری سن کا آغاز سرو ر کائنات جناب محمدمصطفی ﷺ (فداہ روحی) کی ہجرت سے شروع ہوتا ہے، ہجرت نبوی ایک حقیقت تھی، ایک انقلاب کا نقطۂ آغاز تھا، ایک نئے عہد کی ابتدا تھی، حکم خداوندی کی تعمیل تھی،شرعی ہجرت تھی، اس ہجرت کے بعد دنیا ایک نئی تاریخ سے آشنا ہوئی، ایک نئی صبح کا دیدار کیا، اسی ہجرت کے سبب امن کی ہوائیں چلیں ، سکون نے فضاؤں کو مہکا دیا، انسان نے انسان کی قیمت پہچانی، انسانی قدروں کو وقار واعتبار عطا ہوا اور کس کس خوشی کا ذکر کیا جائے جو اس ہجرت کے نتیجہ میں بنی نوع انساں کو ملی، کس کس خوشبو کا تذکرہ ہو جس سے پوری انسانیت مہک اٹھی، کن کن پھرلوں کا ذکر ہو جس سے دل ودماغ فرح انبساط کے کیف سے آشنا ہوئے جن پھولوںمیں کشش تھی دلکشی تھی، پہلی بار عالم انسانی میں یہ پھول کھلے تھے اور ہجرت کے نتیجہ میں دنیا ان کی خوشبو اور سحر آفریں تاثیر سے مستفید ہوئی تھی، یہ ہجرت ارشاد خدادوندی کی تعمیل تھی۔
والذین ھا جروا فی اﷲ من بعدما ظلموا لنبوئنھم فی الدنیا حسنۃ والأجر الآخرۃ أکبر، لوکانوا یعلمون، (نحل ۴۱) ترجمہ: ’’جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں‘‘۔
ومن یھا جرفی سبیل اﷲ یجد فی الأرض مراغما کثیرا وسعۃ (نساء: ۱۰) ترجمہ:’’جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں پناہ لینے کے لئے بہت جگہ اور بسر اوقات کے لئے بڑی گنجائش پائے گا‘‘۔
یہ ایک قربانی تھی جو اللہ کے لئے، اس کے دین کے لئے اور دین کی بقا اور انسانیت کے تحفظ کے لئے رسول اﷲ ﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اﷲ علیھم اجمعین (فداھم ابی وامی وعرضی) نے دی تھی، اسی کے بعدپھر وہ مرحلہ بھی آیا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار و مشرکین کی مخالفت کے سبب یہ فیصلہ کرلیاکہ ان کو سبق سکھایا جائے اور حق کو غالب کیا جائے، ذلک بأنھم شاقو اﷲ رسولہ، ومن یشاقق اﷲ ورسولہ فان اﷲ شدید العقاب (الانفال ۱۳)
ترجمہ؛ یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لئے نہایت سخت گیر ہے،
بعض صحابہ کرام نے جب یہ سوچا کہ بجائے اس کے کہ قریش کے مسلح لشکر سے مقابلہ کیا جائے اور پھر غلبہ حاصل ہو اس تجارتی قافلہ پر غلبہ حاصل کیا جائے جو شام سے آرہا ہے کیونکہ یہ بے خطر اور سہل ہے تو اﷲ نے مقصد بیان کرتے ہوئے تنبیہ فرمائی ،
وإذ یعدکم اﷲ احدی الطائفتین أنھا لکم وتودون أن غیر ذات الشوکۃ تکون لکم ویرید اﷲ ان یحق الحق بکلمتہ و یقطع دابر الکفرین، لیحق الحق ویبطل الباطل ولوکرہ المجرمون۔(نساء: ۷-۸) ترجمہ: ’’یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا تھا کہ دونوں گروہوں میں سے ایک تمہیں مل جائیگا، تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ تمہیں ملے، مگر اﷲ کا ارادہ یہ تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے تاکہ حق حق ہوکر رہے اور باطل باطل ہوکر رہ جائے خواہ مجرموں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘۔
اس طرح حق تعالیٰ نے حق کو کفر و باطل پر غلبہ عطا کیا اور پھر دنیا نے امن وسکون کا مشاہدہ کیا، ایک زریں عہد کا آغاز ہوا، عدل وانصاف اور حقیقی ترقی وتمدن کے چرچے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے رحمتوں کے دہانے کھول دیے، لیکن یہ سب ممکن ہواان خصوصیات وصفات کے نتیجہ میں جن کا ذکر ان ہی آیات سے قبل کی آیات میں کیا گیا ہے،
إنما المومنون الذین إذا ذکر اﷲ وجلت قلوبھم وإذا تلیت علیھم آیٰتہ زادتھم إیمانا وعلی ربھم یتوکلون الذین یقیمون الصلوۃ ومما رزقنھم ینفقون، أولئک ھم المومنون حقا لھم درجت عند ربھم ومغفرۃ ورزق کریم (سورہ انفال: ۲-۳-۴)ترجمہ: ’’سچے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں توان کا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں، ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں، ان کے لئے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں،اور بہترین رزق ہے‘‘۔
ہجرت کے بعد بدر کا یہ واقعہ اپنی جگہ بڑی اہمیت کا حامل ہے بلکہ قرآن کی زبان میں یہ ’’فرقان‘‘ ہے، حق کی سرخروئی و سربلندی کی تاریخ رقم ہونی تھی، رحمت خداوندی نے باطل اور طاغوتی طاقتوں کی سرکوبی کا جو فیصلہ فرما لیا تھا اس کے لیے یہ غزوہ ضروری تھا اور اس کا مقصد بھی واضح کر دیا گیا جو اوپر مذکور ہوا، رسول پاک (فداہ روحی) نے جن خصوصیات کی تلقین کی اور صحابۂ کرام جن صفات سے متصف ہوئے اور اس کے نتیجہ میں ان کو جو فتح و کامرانی نصیب ہوئی وہ ایک ایسی تاریخ ہے جس کی نظیر ملنی مشکل ہے اور جس کا اعتراف اہل یورپ نے بھی کیا ہے۔
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں وہ بھی قربانیوں کا طالب ہے، طاغوت اپنے شباب پر ہے، مادیت کا عروج ہے، امت مسلمہ کے اس طبقہ کو جس کے ہاتھ میں زمام اقتدار اور علمی و تعلیمی اور سیاسی میدان کی قیادت آتی ہے اسلام کے بارے میں مغرب نے تشکیک میں مبتلا کر دیا ہے، اسے اسلام پر اعتماد نہ رہا، وہ اسلام کو اس دور میں قیادت کے لائق نہیں سمجھتا، مغرب اس سلسلہ میں اپنے پر فریب نظام تعلیم کے ذریعہ پوری طرح کامیاب ہوگیا کہ اس نے اسلام کے نام لیوا تعلیم یافتہ طبقہ کو خود اپنے اور اپنے مذہب کی قیادت کے سلسلہ میں ایسے احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جس سے نکلنا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے۔ وطن عزیز اور عالم اسلام کی صورت حال پر تفصیل سے گفتگو کرنے کا یہ موقع نہیں لیکن احساس کمتری کے متعلق یہ عرض کرنا ہے کہ اب وہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ کوئی اسلامی قیادت اور مسلم قیادت پر بات کرنے اور بات سننے کو بھی تیار نہیں، ایک دور وہ تھا کہ کم از کم یہ بات پسند کی جاتی تھی اور اس کے لئے سرد ہی صحیح لیکن کوششیں ہوتی تھیں لیکن اب تو اس کا استہزا کیا جاتا ہے، اس بات پر سوالیہ نشان لگائے جاتے ہیں، غیر تو غیر اپنے ہی درپہ آزار ہوجاتے ہیں، اچھے اچھے لوگ ان سہاروں کی دہائی دیتے ہیں جو سراپا طاغوت ہیں اور جن کی تاریخ اسلام دشمنی پر قائم ہے۔
آج اسلام کا نام لینے والوں کے خلاف اس طرح سازشیں رچی جاتی ہیں کہ سازشیں کرنے والوں اور الزام تراشی کرنے والوں کے ایمان پر شبہ ہونے لگتا ہے، اس وقت حق و باطل کی کشمکش اپنے عروج پر ہے، یہ دو نظریوں کی جنگ ہے، پوری دنیا میں باطل اپنے پورے لاؤ لشکر کے ساتھ حق پر غالب آنے کے لئے بے تاب ہے، اپنوں کی سازشوں سے جہاں تک اس کو کامیابی ملی اس پر اس کی خوشی اور اس کے جشن اور اس کی تحقیر اور طعن وتشنیع سے کوئی گلہ نہیں، لیکن اپنوں کی بے یقینی، بے حسی و بے اعتمادی اور غیر ایمانی سوالات پر حیرت و استعجاب ضرور ہے، اہل حق، اسلام پسند اور دین رحمت پر اپنی جان نچھاور کرنے والوں کو کمزوری، عدم استعداد، بے صلاحیتی کی صفات سے متصف کرنے والے بلکہ اسلام پسندوں کی قائدانہ صلاحیتوں پر شک کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اہل حق کو ہر طرح آزمایاجاتا ہے، آزمائشوں کی نوعتیں الگ الگ ہوتی ہیں لیکن مقصد ایک ہوتا ہے لیمیز اﷲ الخبیث من الطیب (الانفال:۳۷)( ترجمہ: تاکہ اللہ گندگی کو پاکیزگی سے چھانٹ کر الگ کرے) تاکہ صحیح و غلط ، خبیث و ناپاک اور طیب و پاک، حامی حق اورباطل کے مدد گاروں کے درمیان کا فرق واضح ہوجائے، اور امت کی صفوں میں چھپے ہوئے منافق میدان میں نظر آنے لگیں، اس آزمائش کی تاریخ بہت مفصل ہے لیکن مقصد ایک ہے ولیبلی المومنین منہ بلاء حسنا (الانفال: ۱۷)( ترجمہ:یہ تو اس لئے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے۔)
حالات کی تبدیلی ممکن ہے، تاریخ کے پیچ و خم کون نہیں جانتا، عروج وزوال کی داستان سے کون واقف نہیں، تاریخ نے نہ جانے کتنے دھارے بدلے اور کس کس موڑ سے گزری، کتنی بنجرزمینیں سبز زار ہوئیں، کتنے صحراؤں میں بہار آئی اور کتنی شاداب بستیاں تاراج ہوگئیں، خدانے خود ہی وعدہ کیا ہے وأنتم الأعلون إن کنتم مومنین( آل عمران ۱۳۹) ترجمہ:’’تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو‘‘۔
اور وہ دشمنان اسلام کے مکرو سازش کو چاک کرنے والا اور انہیں بے معنی بنانے والا ہے،ذلکم وأن اﷲ موھن کید الکفرین، (انفال: ۱۸)ترجمہ: ’’یہ معاملہ تو تمہارے ساتھ ہے اور کافروں کے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والا ہے‘‘۔
اس کے سامنے سازشوں کی کیا حقیقت، لاؤلشکر کی کثرت کے کیا معنی لیکن رجوع تو کرے کوئی اس کی طرف، پیدا تو ہوں وہ خصوصیات، جنم تو لے وہ جذبہ، نظر تو آئے اس ایمانی طاقت کا مظہر جو مادیت کے محلات کو خاک کے ریزوں کی طرح اڑا دیا کرتی ہے، وہ عزیز و حکیم تو خود کہتا ہے وأن اﷲ مع المومنین ، ’’اور اللہ مومنوں کے ساتھ ہے‘‘، (انفال ۱۹)
لیکن کون سے مومن، کیسے مومن، کن صفات و خصوصیات سے متصف مومن، یقین کے کس معیار پر فائز مومن، یہ تصویر قرآن میں دیکھنی پڑے گی، نصرت کے وعدے ہیں، مدد اس کی طرف سے آئی اور آتی ہے، لیکن ان صفات سے متصف لوگوں پر جن کا ایمان پہاڑ سے زیادہ طاقت ور تھا، اٹل تھا، غیر متزلزل تھا، جو اسلام کی قیادت پر کامل یقین رکھتے تھے، جو نعمت پر نازاں و فرحاں تھے۔
ہم کو اپنے ایمان کو پرکھنا پڑے گا، قرآن میں سب کردار موجود ہے، لقد انزلنا الیکم کتابا فیہ ذکرکم افلا تعقلون( انبیاء ۱۰)ترجمہ: ’’لوگو! ہم نے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب بھیجی ہے جس میں تمہارا ہی ذکر ہے کیا تم سمجھتے نہیں ہو‘‘۔
اور آج کی صورت حال، معاشرے کے مشاہدات اور اپنے گریباں میں جھانکنے کے بعد جو وجہ سمجھ میں آتی ہے اور اپنا جو کردار قرآن میں نظر آتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے وآخرون اعترفوا بذنوبھم خلطوا عملا صالحا وآخر سیا عسی اﷲ أن یتوب علیھم إن اﷲ غفور رحیم (التوبہ: ۱۰۲) ترجمہ:’’کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے، ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد بعید نہیں کہ اﷲ ان پر پھر مہربان ہوجائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔
اچھے برے کی تمیز جاتی رہی، حق و ناحق کا فرق ختم ہوگیا، تسبیح و مناجات کے ساتھ ساتھ کبائر بھی زندگی کا حصہ بن گئے ،شکل و صورت مسلمان سی بنا کر بھی غیبت ، جھوٹ، بد گمانی، کبر، بدگوئی، الزام تراشی، بغض و حسد جیسے مہلک امراض سے نجات نہ مل سکی، نتیجہ یہ ہوا کہ ترقی کے دروازے بند ہوگئے، بد امنی و بے کیفی اس طرح عام ہوگئی کہ توکل و اعتماد کا سبق دینے والے بھی اس کا شکار ہوتے نظر آئے اور پھر احساس یہاں تک پہنچا کہ ایک گوشہ میں رہ کر دین کے کسی جزء پر محنت کو ہی مکمل دین کی محنت سمجھ بیٹھے، یا یوں کہیے کہ گوشۂ عافیت میں رہ کر جو کام ممکن ہو بس اسے کر لیا جائے اور اسی کو کافی سمجھا جائے۔
ضرورت ہے کہ ہجرت کی تاریخ ، اور اس عظیم الشان قربانی کے اصل پیغام و مقصد کو لائحہ عمل بنایا جائے اور اس کی روشنی میں اس مستقبل کا سفر طے کیا جائے جو متعدد وجوہ کے سبب انتہائی بھیانک و خطرناک ہے، وقت کا سب سے بڑا تقاضہ یہ ہے کہ امت کو احساس کمتری سے نکال کر اس مقصد کی طرف لے جایا جائے جس کے لئے حضور پاک ﷺنے ہجرت کی اور جس کے نتیجہ میں دنیا منور وشاداب ہوئی، اس نے ایک حکومتی، سیاسی، تعلیمی، اقتصادی، معاشی اور فوجی نظام سے استفادہ کیا اور انسانی تہذیب ایک نئے تمدن سے آراستہ ہوئی، اور ان کی امامت میں انسانیت نے بہتر پر سکون سفر طے کیا، لیکن افسوس اس پر ہے کہ ہماری غلط پالیسی اور کج فہمی کے سبب حالت یہاں تک آپہنچی کہ
کر سکتے تھے جو اپنے زمانہ کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو
ہجرت کے نتیجہ میں جو وسیع عمل ہوا اور اس کا جو معنی خیز، مؤثر اور وسیع و آفاقی پیغام تھا اس کو جس طرح اس دور میں برتا گیا اور برتا جا رہا ہے اور بالخصوص ہمارے بر صغیر میں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اس پیغام کے ایک جزء پر عمل ہے، اس کے ایک گوشۂ عافیت میں رہ کر نجات کی تلاش ہے، حالانکہ یہ راستہ محفوظ نہیں، بہت پہلے اقبال مرحوم نے کہا تھا ؎
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
ضرورت ہے کہ اس طرز عمل کو بدلا جائے اور اس وسیع و جامع پیغام کے حصول و نفاذ اور اتباع کی کوشش کی جائے جس سے معاشرے کی اضطراری کیفیت دو ر ہو، تنویت کا مہلک تصور اور اس سے پیدا ہونے والی تباہیاں ختم ہوں اور ملت پھر ایک زریں عہد کا آغاز کرے۔