از قلم: ظفر امام قاسمی ، دارالعلوم بہادر گنج،کشن گنج ،
گذشتہ ہفتے کی بات ہے میں بائیک پر سوار ہوکر جونہی مدرسے کے گیٹ سے نکلا میری نظریں پتھریلی سڑک پر گھسٹتی ہوئی ایک ساٹھ ستر سالہ بڑھیا پر پڑی،بڑھیا کے سامنے چیتھڑوں سے بنا ایک بوسیدہ ساگٹھر تھا،بڑھیا کولہوں ( چوتڑوں)کے بل اس پتھریلی سڑک پر گھسٹتی ہوئی چل رہی تھی،اور اس کا گٹھر اس کے ہاتھوں کے زور سے لڑھکیناں کھاتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا،اس کا بدن جتنا کمزور و ناتواں تھا اس سے کہیں زیادہ اس کی ہیئتِ کذائی خستہ اور ناگفتہ بہ تھی،جسم پر میلی کچیلی سی ایک چادر اور سر پر پرانا سا ایک دوپٹہ اور اس کے سامنے رکھے چیتھڑوں سے بنا وہ گٹھر ہی اس کی کل کائنات تھا۔
بکھرے بال اور غبار آلود جسم جسم پر مشتمل اس کی حالتِ زار دیکھ کر اولِ وہلے میں مجھے لگا کہ شاید کوئی پگلی یا دیوانی ہوگی جو سڑک پر اس ابتر حالت میں پڑی ہوگی، پھر بھی میں نے اس سے تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر پوچھا کہ” پیسے لیتے ہیں؟“ اس پر اس کی زبان سے ایک لرزتی ہوئی آواز نکلی ”بیٹا پیسوں کے لئے ہی تو اتنی مشقت اٹھا رہی ہوں،جب سے ایکسیڈینٹ میں میرے پاؤں کی ہڈی ٹوٹی ہے تب سے مانگ کر ہی کھا رہی ہوں،میرا گھر یہاں سے دور (اس کا گھر وہاں سے تقریبا دو کیلو میٹر دور تھا) ہے مگر کیا کروں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ بھی تو نہیں“۔ میں نے پوچھا: آپ کا کوئی بیٹا نہیں جو آپ کو کماکر کھلائے؟“ بیٹا ہے مگر آج بیس برس سے ممبئی میں پاگل بنا پھر رہا ہے،اسے گھر سے گئے بیس برس ہوگئے“ یہ اس بڑھیا کا جواب تھا۔
ویسے یہ تو ہمارا آئے دن کا مشاہدہ ہے کہ جب ہم سڑکوں پر چلتے ہیں یا کسی جگہ کا سفر کرتے ہیں تو ہماری ملاقات بےشمار منگتوں سے ہوتی ہے،سو اس بڑھیا کا مانگنے کے لئے گھر سے نکلنا میرے لئے کوئی تعجب خیز امر نہیں تھا،مگر اس کی حالتِ زار دیکھ کر میرے کلیجے کو ایک زور کا دھکا لگا، یک بیک جسم پر ارتعاش کی لہریں دوڑ پڑیں اور آنکھوں کے کٹورے سے اشکوں کے قطرے چھلکنے کو بےتاب ہونے لگے،میں نے بہت کوششوں کے ساتھ اپنے آنسؤوں کے سامنے بند باندھا جو میرے وہاں سے نکلنے کے بعد ٹوٹ پڑا،اور مجھ سے جتنا ممکن ہوسکا اس کی ہتھیلیوں پر رکھ دیا،اِس پر اس بوڑھی ماں نے مجھے بہت ساری دعاؤں سے نوازتے کہا کہ” بیٹا اللہ تمہیں دین و دنیا دونوں جگہ سرخرو کرے اور گاڑی گھوڑوں سے بچائے رکھے“میں اس کی ان دعاؤں سے نہال ہوکر گھر کے لئے روانہ ہوگیا،پورے راستے میں مجھے اس بوڑھی ماں کے غبار آلود چہرے کے سوا اور کچھ نظر نہ آیا،اور شاید اسی کی دل کی تہوں سے نکلی دعاؤں کا اثر تھا کہ میں اسی رات کو ایک بڑے حادثے سے بچ گیا۔
اسی طرح کل صبح کی بات ہے،دس بجے کا وقت تھا،میں درسگاہ سے باہر نکلا تو دیکھا کہ ایک چھوٹا سا لڑکا جس کی عمر یہی کوئی دس گیارہ سال کی رہی ہوگی، نہایت ہی خستہ اور ابتر حالت میں میرے کمرے کے سامنے ٹہل رہا ہے،اس کی پیٹھ پر ایک پرانا سا بیگ،سر پر بوسیدہ سی ٹوپی،بدن پر ڈھیلی ڈھالی سی جیکٹ اور پاؤں میں قدیم وضع کے جوتوں کے سوا اس کے پاس اور کچھ نہ تھا،شکل سے کافی پریشان لگ رہا تھا،میں نے قریب آکر پوچھا” بابو تمہارا گھر کہاں ہے؟“ اِس پر اس بچے نے یہاں سے تقریبا دس کیلو میٹر دور کے ایک گاؤں کا نام لے کر جواب دیا ” میرا گھر اُس گاؤں میں ہے“ میں نے پوچھا بیگ میں کیا ہے اور یہاں کیوں آئے ہو؟اس پر اس نے رونی سی صورت بنا کر کہا:بیگ میں کتابیں ہیں اور میں یہاں پڑھنا چاہتا ہوں“ میں نے پوچھا تمہارے ماں باپ کہاں ہیں،تمہارے ساتھ وہ کیوں نہیں آئے؟“ اس پر اس معصوم کے چہرے پر کرب کی لکیریں کھنچ گئیں اور اس کا اندرونی درد چھلک کر آنکھوں کے راستے باہر آگیا،اپنے آنسؤوں کو پونچھتے ہوئے اس نے کہا: میرے ماں باپ کا انتقال ہوچکا ہے،دادی کے پاس تھا تو آج دادی نے مجھے گھر سے یہ کہتے ہوئے نکال دیا کہ جاؤ میں تمہیں کھلا نہیں سکتی خود کماؤ اور خود کھاؤ،میں میں بھٹکتے ہوئے یہاں تک پہونچا ہوں،اب مجھے یہیں پڑھنا ہے“ میں نے کہا:بابو ابھی تو سال پورا ہونے والا ہے ابھی تم چلے جاؤ رمضان کے بعد آنا تمہارا داخلہ ہوجائےگا،تمہاری دادی نے تمہیں غصے میں آکر کہہ دیا ہوگا،اس کے بعد میں نے اسے سو روپے دینے چاہے تو اس نے کہا کہ: میرے پاس دو سو روپے ہیں جو میں نے دوسروں کے کھیتوں میں مکئی لگاکر کمائے ہیں،آپ رہنے دو“ مگر میں نے زبردستی سو روپے اس کے ہاتھوں پر رکھ دیا،وہ معصوم وہاں سے نکلا اور جس راستے سے آیا تھا اسی راستے واپس چلا گیا،اس بات سے بےخبر کہ اس کا مستقبل گھر میں کس صورت میں اس کے فرش راہ ہے۔
یہ تو ہمارے معاشرے کا ایک رُخ ہے جس میں اس طرح کے ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں افراد غربت و افلاس،تنگ دستی و ناداری اور بےکسی و کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں،اس ترقی یافتہ دور میں بھی وہ اس فاقہ کشی،خستہ حالی اور زبوں نصیبی کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے ہیں کہ دیکھتے ہی ایک آہ زبان سے نکل جاتی، آنکھیں نم ہوجاتیں اور دل ملول ہو جاتا ہے،اُن بےچاروں کو تو اپنے پیٹ اور چھت ہی کی پڑی ہوتی ہے اور اگر سوئے نصیب سے وہ کسی بیماری کے شکار ہوجائیں تو یہ ان کے لئے کسی عذابِ جہنم سے کم نہیں ہوتی، خود داری اور عزتِ نفس ان کو کسی کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلانے سے روکتی ہے،جبکہ اندر ہی اندر وہ اپنی تہی قسمت پر روتے اور آنسو بہاتے ہیں اور ان کا آدھا جسم اسی فکر میں گھل جاتا ہے کہ علاج کیسے کریں؟ اسی فکر اور تردد میں وہ جیتے جی مرجاتے ہیں۔
جبکہ ہمارے معاشرے کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے جہاں دولت و ثروت کی جھنکار سے کوٹھیوں اور بنگلوں کے بام و در تھرک رہے ہوتے ہیں،سیم و زر کی بہتات اور مال و دھن کی فراوانی مکان و ایوان کے نقش و نگار اور کوٹھی و بنگلے کے بناؤ سنگار اور دیگر فضول خرچیوں میں دریا کے پانی کی طرح بہہ جاتی ہے،پیدائش سے لیکر موت اور شادی سے لیکر رخصتی تک نہ جانے ہمارے کتنے پیسے راہ و رسم کو نبھانے اور اپنی انا کو بچانے میں برباد ہوجاتے ہیں،جس میں نہ ایک پائی کا کوئی دنیوی فائدہ ہے اور نہ ہی ایک آنے کا اخروی نفع سوائے چند دنوں کی واہ واہی اور ہلاشیری کے،مگر اس کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا،ہم نام و نمود کے دیوانے بن چکے ہیں، کسمپرس اور نادار لوگوں کی زبوں حالی ہماری آنکھوں کے سامنے رقص کرتی ہے مگر ہم اپنی شہرت و ناموری کی دوکان چمکانے میں مگن ہیں۔
ہم رقص و سرود کی محفلوں،نائٹ کلبوں کی عریانیوں اور مشاعروں کی فحش منظریوں کے پیچھے ہزاروں ہزار منٹوں میں صرف کردیتے ہیں،مگر جہاں ایسے نادار اور مستحق لوگوں پر خرچ کرنے کی باری آتی ہے تو ہماری آنتیں بھی ہل جاتی ہیں اور ہم وہاں برسوں کے قلاش بن جاتے ہیں،ہمارا نوجوان طبقہ مشاعرہ میں مدعو ایک فحش نگار شاعر اور شاعرہ کے پیچھے،شارٹس کرکٹ اور ناچ و ڈانس کی محفلوں میں بےشمار پیسے اڑا دیتے ہیں مگر ان جیسے لوگوں کے ہاتھوں میں ایک روپے بھی انہیں دینے کی توفیق نہیں ملتی،یہ ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
اس بوڑھی ماں اور اس یتیم بچے جیسے لوگ ہمارے ہی معاشرے کے حصہ ہیں،مگر افسوس کہ ہماری آنکھیں اس وقت بھی نہیں لجاتیں، ہمارے دل اس وقت بھی شرمندگی کے احساس سے زیرِ بار نہیں ہوتے اور ہمارے جسم اس وقت بھی لرزاں نہیں ہوتے جب غربت کے مارے یہ لوگ ہماری لگزری گاڑیوں اور مرمریں ایوانوں کے سامنے کاسۂ گدائی پھیلائے صدائیں لگائے پھرتےہیں،وہ ادھر اپنی مصیبتوں کا رونا روتے ہیں اور ہم ادھر اپنے ایوانوں میں بیٹھ کر ٹھہاکے مار رہے ہوتے ہیں،ہم ان کی پکار پر بےحس بن جاتے ہیں جیسے ہم پیدائشی بہرے ہوں،بہتوں کو تو ہم نے انہیں دھتکارتے اور ان کا مخول اڑاتے ہوئے بھی دیکھا ہے،ان کو یہ سوچ نہیں آتی کہ جس خدا نے ہمیں دیا ہے وہ ہم سے چھین بھی سکتا ہے،اگر ہر معاشرے اور سماج کے مالدار لوگ اس طرح کے مجبور و بےکس لوگوں پر انفاق کا بیڑا اپنے سر اٹھالیں اور وقتا فوقتا اپنی فضول خرچیوں کو دبا کر ان کی ضروریات کا خیال رکھیں تو ان شاء اللہ یہ ان کے لئے گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔
لھـــــــــذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہو،ہمارے سماج میں رہنے والے لوگ دور دراز کے علاقوں میں جاکر کاسۂ گدائی نہ پھیلائیں تو ہمیں اپنی ترجیحات کی سمت کو بدلنا ہوگا،ہم یہ نہیں کہتے کہ آپ اپنے گھر بار کو چھوڑ کر صرف انہی کی کفالت کے پیچھے پڑجائیے کہ یہ چیز بھی محمودِ شریعت نہیں بلکہ اپنی فضول خرچیوں پر نکیل کستے ہوئے ان نادار اور بےکس لوگوں کے کام آنا مطلوبِ شریعت ہے،اس سے ان شاء اللہ آپ کی دنیا بھی سنورےگی اور آپ کی آخرت کا رخت بھی تیار ہوگا۔
اللہ پاک ہمیں سمجھ عطا کرے اور اپنی مرضیات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔ آمین