از قلم:عین ا لحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
نصاب تعلیم ،کسی بھی ادارے کے لئے انتہائی اہم ہوتاہے،اسکول ہو یا کالج یا مدارس و مکاتب ،سبھی ادارے اپنے اپنے ماحول میں طلبہ وطالبات کے روشن مستقبل کے لئے مختصر یا طویل، نصاب تعلیم کی خواندگی کو ضروری قرار دیتے ہیں ،تاکہ زیر تعلیم بچے بچیوں میں مطلوبہ صلاحیت پیدا ہوسکے ۔
ماہرین تعلیم اس بات کو شروع دن سے مانتے رہے ہیں کہ کچھ چیزیں نصاب کا حصہ نہ ہونے کے باوجود ہم نصاب ہوتی ہیں اور وہ نصاب تعلیم کی طرح ہی مفید بلکہ انفع ثابت ہوتی ہیں ، جسے غیر نصابی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جاتا ہے ،ذہنی وفکری توانائی ، خیالوں میں وسعت ،بلند آہنگی ،قیادتی شعور ،اخلاقی اطوارجیسی متعدد خوبیاں انہیں غیر نصابی سرگرمیوں کی راہ سے حاصل ہوپاتی ہیں،اسی لئے معاصر چھوٹے بڑے اسکول وجامعات کی طرح دینی اداروں میں بھی غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے خصوصی گوشے ہوتے ہیں ۔
آج جب کہ ہردن نت نئ ایجادات سے دنیا باخبر ہورہی ہے ،جدید طریقہ تعلیم ،نئےفنون اور نئے رجحانات صبح وشام ،نسل نو کے ذہن وفکر پر دستک دے رہے ہیں ،ایسے میں عام زاویوں سے یہ بات واضح ہوکرسامنے آرہی ہے کہ "مطلوبہ” غیر نصابی سرگرمیاں بھی بڑی تیزی سے متآثر ہورہی ہیں ،انٹر نیٹ ،موبائل فون اور جد یدوسائل وآلات نے طلبہ وطالبات کو "غیر نصابی” سرگرمیوں سے کافی دور کیا ہے ،قبل میں کبھی بچے جب "درسیات "کے علاؤہ دیگر "فنون "کو سیکھنے میں اپنی فطری دلچسپی دکھاتے تھے اور اس کے ذریعہ گھر خاندان اور ملک وملت کے کام آنے کا جذبہ پالتے تھے ،قیادت وسیادت کا شعورتک پاتے تھے ،اجتماعیت کے لئے انفرادی خواہشات کو قربان کر گاؤں سماج کی خدمت کو مقصد بناتے تھے ،تب آج بچے ان پاک جذبوں اور غیر نصابی سرگرمیوں سےالگ ہٹتے جارہے ہیں ،ان طلبہ وطالبات کے اندر مثبت رخ میں کچھ بڑا کرنے اوربہت اچھا کرنے کاضروری داعیہ ماند پڑتا جارہا ہے ،بلکہ بچے تنہائی پسند ہوکر زندگی جینے میں راحت محسوس کرنے لگے ہیں ۔وہ جد وجہد سے آشنا ہونے کی بجائے گوشہ نشینیں اور عافیت پسند ہوتے جارہے ہیں ،وہ "کردار” کو فیس کرنے اور مقابلہ کرنے سے جی چرانے لگے ہیں ۔
مگرآج کے اس مایوس کن حالات میں بھی مکمل مایوس ہونےکی ضرورت نہیں ،بلکہ کچھ خوش قسمت طلبہ وطالبات ہر جگہ ہیں جو خیر وشر میں امتیاز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، درسیات کے علاؤہ جہتوں سےبھی اپنی مطلوبہ صلاحیت کو پانے کی جستجو اور کوششوں میں اکثر رہا کرتے ہیں ۔
مدارس اسلامیہ جو ملک کو اچھے اور خواندہ شہری دینے میں ہمیشہ سے اپنا مخلصانہ تعاون دیتے رہے ہیں ، یہاں کے فضلاءملک سے ٹوٹ کر نہ صرف محبت کرتے ہیں ،بلکہ اسے امن و ترقی کی راہ سےاوپر اٹھا نے کے لئے بھی برا بر جد وجہد کرتے رہتے ہیں، ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں آج بھی غیر نصابی سرگرمیوں کے تئیں غیر معمولی حساسیت پائی جاتی ہے۔
دینی مدارس میں طلبہ کی خوبی کہہ لیجئے کہ وہ ہر روز درسیات کےتئیں مذاکرہ ومطالعہ میں بھی پابندی سے اپناوقت لگاتے ہیں اور غیر نصابی سرگرمیوں سے بھی خود کو جوڑ کر رکھتے ہیں ،جب کہ مدارس میں درسیات کا بوجھ اتنا ہوتا ہے کہ وہاں غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے یومیہ وقت نکالنا بہت مشکل ہوتاہے،مگر طلبہ کی دلچسپی قابل رشک ہوتی ہے ،وہ پھربھی کچھ نہ کچھ تھوڑا بہت وقت فارغ کرتے ہیں اور اسباق کے علاؤہ دیگر فنون پربھی اپنی صلاحیت کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں ۔
افسوس اس امر کا رہا کرتا ہے کہ جس طرح دیگر معاصر اداروں میں زیر تعلیم طلباء کو اداروں کا سپورٹ حاصل رہتا ہے، وسائل کی حصولیابی میں تعاون ملا کرتا ہے یا حوصلہ افزاء خیالات کی کامل سرپرستی ملی رہتی ہے وہ سب کچھ یہاں ندارد ،بلکہ بعض جگہوں پر اخراج وواقعی سزاء کی تلوار ہر وقت سرپر لٹکتی رہتی ہے ،گویا تلواروں کے سائے میں طلبہ مطلوبہ غیر نصابی سرگرمیوں کو سرانجام دے کر آگے بڑھنے کا جنون پالتے ہیں ،ازخود رخ طئے کرتے ہیں اور خود ہی اس راہ پر چلنے کی جسارت کرتے ہیں ،مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ سبھی اپنے اپنے رخ پر چل کرادارہ ،اساتذہ اور ملک وملت کی نیک نامی کا ملک و بیرون ملک مثبت ذریعہ بنتے ہیں ۔
آج اگر ہمیں فضلاء مدارس میں چند ایک نوجوان نسل مختلف میدانوں میں نمایاں کرتے نظر آرہے ہیں تو یہ ان کی مثالی محنت اور بلا شرکت غیرے اپنی جنونی جد و جہد کا نتیجہ ہے ،مدارس کے فضلا صرف” معروف انجمن ” کی مدد یا اس ایک پلیٹ فارم کے ذریعے ہی کچھ الگ سے سیکھ پاتے ہیں اور اندرون مدرسہ یہی ایک ذریعہ ان کے پاس ہے جس کے گرد وہ ہمہ جہت صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں۔اڈی انجمن سےقلمی صلاحیت حاصل کر وہ صحافی ،مصنف ،مؤلف ومرتب اور تاریخ نویس تک بن پاتے ہیں ،اسی پلیٹ فارم سے وہ ملک وملت کے پاسباں اور مجاہد بھی بنتے ہیں ” بخاری "آزاد "و”جوہر ” جیسےوبلند آہنگ مقرر وخطیب بھی تیار ہوتے ہیں اورجمہورہت کے چوتھے ستون کے محافظ بن کر حق اور سچ کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے پرنٹ والکٹرانک میڈیاکی بائٹ بھی تھامتے دیکھائی دیتے ہیں ۔ حفظ الرحمان سیو ہاروی ،اسرارالحق قاسمی اور فدائے ملت سید اسعد مدنی جیسے حق کے ترجمان سیاست کی گتھی سلجھاتے مل جاتے ہیں ،اسلامیات پر فقہ وفتاویٰ ،شرعی نکات اور دینی رہنمائی کا "ہنر” بھی وہ اسی "انجمن ” کی دنیا میں سیکھتے ہیں ۔سماجی ،ملی ،فلاحی ،تعلیمی ،دعوتی، اصلاحی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی متنوع خدمات پیش کرنے کا گن بھی فضلاء مدارس انہیں قائم انجمنوں سے حاصل کر پاتے ہیں۔
ضرورت ہے کہ مدارس کے طلباء اپنے زمانہ طالب علمی میں ماآتکم الرسول ،فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا کی عملی تصویر بنیں ،مرکزیت حصول علم کو دیں ،خواہ نصابی غیر نصابی راہ سے ہو ،مگر غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے اپنا معاون ورہنما ضرور منتخب کریں ۔اسی طرح ضرورت ہے کہ مدارس میں قائم انجمنوں کے نظام کو نہ صرف مضبوط کیا جائے ،بلکہ فکر ونظر میں وسعت دینے کے ساتھ ہی اس کی مکمل سرپرستی کی جائے،تاکہ غیر نصابی سرگرمیوں کی یہ قدیم بافیض "تاریخی انجمنیں” اپنی افادیت سے مزید روشنی پھیلانے کا کام کرسکیں اور اس کے صالح فضلاء ومستفیدین طلاطم ہائے زمانہ سے نبرد آزماہوکر دنیا کی قیادت وامامت کا فریضہ بخوبی انجام دیتے رہیں ۔