Slide
Slide
Slide

مدارس ملحقہ کے حوالے سے کچھ میٹھی کچھ کٹھی باتیں

مدارس ملحقہ کے حوالے سے:کچھ میٹھی کچھ کھٹی باتیں 

ہمارے دو MLC عالی جناب خالد انور صاحب اور عالی جناب قاری صہیب صاحب نے بالترتیب نئے دستور العمل اور 609 مدارس ملحقہ کی تنخواہوں پر روک کے حوالے سے اسمبلی ہاؤس میں جس مضبوطی اور بے باکی کے ساتھ مدارس ملحقہ کے حق میں آواز بلند کی ہے وہ انتہائی قابل تعریف،لائق ستائش اور باعثِ فخر ہے،یہ ان کی اقلیتوں کے حوالے سے حساسیت کی عملی تصویر ہے۔

ہم ان دونوں مسلم لیڈران کو دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتے اور ان کے لئے نیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔ وہیں یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ آخر ریاست کے بقیہ مسلم لیڈران کہاں ہیں،کیا انہیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا؟

انتہائی شرم کی بات ہے کہ ان سبھوں کو الیکشن میں مسلمانوں کا اور بطورِ خاص مولویوں اور ان کے پریوار و متعلقین کا ووٹ تو چاہئے لیکن مسلمانوں سے وابستہ اقلیتی اداروں،اقلیتی مسائل اور مٹھی بھر مدارس ملحقہ اور ان سے وابستہ طلبہ عزیز اور معزز اساتذہ کرام کی روز افزوں دشواریوں کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ اور کان سے سن کر ذرہ برابر ترس نہیں آتا۔

ان کے الیکشن میں مولوی،ان کی تقریبات میں مولوی،ان کی عیادت میں مولوی اور ان کی تعزیت میں مولوی یعنی ان کے ذاتی دکھ سکھ میں مولوی پیش پیش رہے لیکن اس جماعت کے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس دو لفظ بولنے اور دو جملہ اپنی حکومت سے سوال کرنے کی یا تو ہمت نہیں یا انہیں اس کی ضرورت نہیں۔

آخر ایسا کیوں؟
وجہ کیا ہے؟

ہم مشہور ہیں کہ ہم سیکولرزم کے علمبردار ہیں تو سیکولر ووٹوں سے چن کر MLA،MP بننے والے اور سرکاری وزارت کے قلمدان سنبھالنے والے کیا مدارس اور ان کے اساتذہ کے رہنما نہیں ہیں؟

ملک کے دوسرے اسٹیٹوں میں مدارس ملحقہ کو یا تو بند کردیا گیا ہے یا بند کرنے کی مکمل منصوبہ بندی پر کام ہورہاہے،یہ صوبہ بہار جو ہمیشہ گنگا جمنی تہذیب کا علمبردار ہی نہیں رہا بلکہ پورے ملک کو سیاست کی سیدھی راہ دکھانے کا کام کرتا رہا ہے اور آج بھی بحمد اللہ نتیش و تیجسوی کی سرکار اسی مثبت سوچ کے ساتھ حکمرانی کررہی ہے تو ایسے وقت میں بھی یہاں کی اتنی بڑی اقلیتی برادری کو سائڈ کرکے اور انہیں نظر انداز کرکے حکمرانی کرنا اور حکمرانوں اور سیاسی لیڈروں کا خاموش تماشائی بنے رہنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہ ہرگز نیک فالی نہیں ہوسکتی ہے اور اس کے اثرات بھی اچھے مرتب نہیں ہوسکتے ہیں۔

ریاست بہار کی جملہ ملی جماعتوں؛امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ،جمعیت علماء بہار،جماعت اسلامی بہار،ادارہ شرعیہ بہار وغیرہ کے ساتھ مدارسِ ملحقہ کی جملہ تنظیموں کے حالیہ درد و کرب اور ان کے واجب مطالبات کی اب بھی اندیکھی کی گئی تو یاد رکھنا چاہئے کہ نقصان صرف ان پریشان حال مدارس ملحقہ،ان میں تعلیم حاصل کرنے والے غریب و پس ماندہ بچے بچیاں اور ان سے وابستہ اساتذہ و ملازمین کی ایک بڑی جماعت ہی کا نہیں ہوگا بلکہ پوری کمیونٹی اور مسلم لیڈران کا ہوگا۔

خدا نہ کرے کہ ایسا موقع آئے۔
امید ہے کہ اشارہ کافی ہوگا۔
سخت کلامی اور ترش روئی کے لئے معذرت خواہ ہوں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: