۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

حسینہ کے بعد اگلا نمبر…؟

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، حیدرآباد

فون:9395381226

___________________

بنگلہ دیش کی تاریخ بدل گئی۔ حسینہ واجد کا تختہ الٹ گیا۔ اور شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے کہ باپ اور بیٹی دونوں کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ باپ جس نے بنگلہ دیش کے قیام میں اہم رول ادا کیا اور بنگلہ بندھو کا خطاب پایا۔ ایک طرح سے وہ بنگلہ دیش کا راشٹرپتا تھے۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ہندوستان کے راشٹرپتا گاندھی جی کو آزادی کے چارماہ بعد قتل کردیا گیا۔ اور بنگلہ دیش کے راشٹرپتا شیخ مجیب الرحمن کو بنگلہ دیش کے قیام، پاکستان سے آزادی کے چار سال بعد ان کے ارکان خاندان کے ساتھ قتل کردیا گیا تھا۔ باپ کا تختہ 15/اگست 1975ء کو اُلٹ دیا گیا تھا، بیٹی حسینہ واجد بغاوت کے بعد 5/اگست 2024ء کو ملک سے فرار ہونے کے لئے مجبور ہوگئی۔ جگہ جگہ نصب کئے گئے مجیب الرحمن کے مجسمے زمین بوس کردیئے گئے۔ حسینہ واجد کے سرکاری اور نجی رہائش گاہ کو لوٹ لیا گیا۔ تبصرہ کرنے والوں نے بڑے اچھے اشعار اس موقع پر سوشیل میڈیا پر شیئر کئے ہیں۔

صبح کے تخت نشین، شام کو مجرم ٹھہرے
ہم نے پل بھر میں نصیبوں کا بدلتے دیکھا

بنگلہ دیش میں طلبہ کا احتجاج، عوامی بغاوت میں تبدیل ہوگیا۔ اور جب بغاوت کامیاب ہوجاتی ہے تو اسے انقلاب کہا جاتا ہے۔ ایک بار پھر یہ ثابت ہوگیا کہ طلبہ اور نوجوان ہی ہر ملک کی بنیادی اینٹ ہوتے ہیں‘ جو وقت آنے پر اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں۔ ایران کا اسلامی انقلاب اگرچہ کہ تاریخ کا حصہ بن گیا مگر تاریخ میں اُن نوجوانوں کے نام موجود ہیں اور ایران کے ہر شہر کی دیواروں پر اُن نوجوانوں کی تصاویر نظر آئیں گی جن کے خون سے ایران کے انقلاب کی تاریخ لکھی گئی۔ علامہ آیت اللہ خمینی کی قیادت میں ایرانی طلبہ اور نوجوانوں نے پہلوی خاندان کے شاہی حکومت کا تختہ الٹا۔ رضا شاہ پہلوی بالکل اُسی طرح فرار ہوا جس طرح سے حسینہ فرار ہوئیں۔ حالیہ تاریخ کا اگر آپ جائزہ لیں گے تو ”بہارِعرب“ کے نام پر یمن، تیونس، لیبیا میں جو انقلاب آیاہے‘ جس طرح سے وہاں کے حکمران طلبہ اور نوجوانوں کی شورش کے آگے ہتھیار ڈال کر اپنے ملکوں سے فرار ہوئے‘ وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیبیا میں معمر قذافی کو برہم ہجوم نے ہلاک کردیا۔ دو سال پہلے افغانستان میں بھی طالبان کے انقلاب کے بعد صدر اشرف غنی افغانستان کی دولت کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں فرار ہوگیا تھا۔ صرف 1989ء میں چین میں طلبہ کی تحریک کو انتہائی سختی کے ساتھ کچل دیا گیا تھا۔ ورنہ جہاں کہیں نوجوان متحد اور متحرک ہوئے وہاں وہاں انقلاب آئے۔

یہ انقلاب کیوں آتے ہیں‘ بغاوت کیوں ہوتے ہیں؟ حسینہ واجد تو کبھی نوجوانوں کی محبوب لیڈر تھیں‘ اس نے بنگلہ دیش میں جمہوریت کی بحالی کے لئے جدوجہد کی تھیں مگر جب خود اس کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تو اس نے انتقامی سیاست اختیار کی۔ ان تمام قائدین کو سزائے موت دی گئی جن کے بارے میں کہا جاتا تھا‘ یہ مجیب الرحمن کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔ اس نے اپوزیشن قائدین کو بھی قید میں ڈال کر اذیت پہنچائی۔ یہاں تک بھی بنگلہ دیشی عوام نے گوارہ کرلیا۔ مگر جب بنگلہ دیش سیول سرویسس میں تحفظات کا معاملہ طول پکڑا تو اس میں ترمیم کا طلبہ نے مطالبہ کیا۔ 1971ء کی پاکستان کے خلاف جنگ اور بنگلہ دیش کی آزادی میں حصہ لینے والے فریڈم فائٹرس کے اولاد اور نئے ملک کی تشکیل کے اذیت ناک جبر و ستم سے متاثر ہونے وا لی خواتین کیلئے کوٹہ سے نوجوان نسل جس طرح سے متاثر ہورہی تھی‘ اس کے خلاف یہ آواز اٹھائی گئی۔ طلبہ قائدین کو اغواء کرکے ان پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ مگر ان طلبہ قائدین نے جن میں سے ڈھاکہ یونیورسٹی کے تین اسٹوڈنٹس لیڈرس ناہید اسلام، آصف احمد اور ابوبکر مزمدار نے بڑی جرأت کے ساتھ احتجاجی تحریک کو جاری رکھا اور پھر اس تحریک نے اس طرح شدت اختیار کرلی کہ فوج کو بھی اندازہ ہوگیا کہ طلبہ اور نوجوان خون کی ندیاں بہادیں گے مگر قدم پیچھے نہیں ہٹائیں گے۔ چنانچہ حسینہ واجد کو ملک چھوڑ دینے کا الٹی میٹم دیا گیا اور حسینہ واجد اپنے دیرینہ دوست ملک ہندوستان پہنچ گئیں۔

حسینہ واجد نے وہی غلطی کی جو ان کے والد مجیب الرحمن نے کی تھی۔ مجیب الرحمن جب 10جنوری 1972ء کو ڈھاکہ آئے تھے‘ تب دس لاکھ افراد نے ان کا استقبال کیا تھا۔ 1973ء میں قومی انتخابات میں ان کی پارٹی عوامی لیگ نے 300 میں سے 292 نشستوں پرکامیابی حاصل کی تھی۔ اتنی مقبولیت کے باوجود اس وقت بغاوت ہوگئی جب مجیب الرحمن جو خود کرپٹ نہیں تھے‘ مگر اپنے وزراء کے کرپشن کو روکنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے بائیں بازو کی انقلابی گروپس کو کچلنے کے لئے اپنی ایک نیشنل گارڈس بنائی جو بنگلہ دیش کی فوج اور پولیس کے علاوہ تھی۔ انہوں نے میڈیا پر پابندی عائد کردی تھی۔ ظلم جب حد سے بڑھ جاتا ہے تو مظلوم ”مرو یا مارو“ کے جذبے کے ساتھ پلٹ وار کرتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن کی نیشنل گارڈس کے جبر و ستم کے خلاف بنگلہ دیش میں بغاوت ہوئی اور پھر 15/اگست 1975ء کو انہیں قتل کردیا گیا۔ حسینہ اور ان کی بہن ریحانہ جو اس سانحہ کے وقت موجود نہیں تھیں‘ بیرون ملک زیر تعلیم تھیں‘ وہ بچ گئیں۔ اپنے ملک واپس آئیں تو وہ عوامی رہنما بن گئیں۔ ان کا 20سالہ اقتدار کا دور ملا جلا رہا۔ آخری پندرہ برس انہوں نے اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کیلئے ہر حربہ آزمایا۔ انتقامی کاروائیوں میں شدت اختیار کی۔ اور اس کا خمیازہ ان کو بھگتنا پڑا۔ کوئی تصور نہیں کرسکتا تھا کہ مجیب الرحمن کے مجسموں کو زمیں بوس کرکے انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا بالکل اُسی طرح جس طرح روس میں لینن کے مجسموں کو گھسیٹا گیا۔

بہرحال! شیخ حسینہ واجد نے وقتی طور پر ہندوستان میں پناہ لی اور اب بھی طلبہ کو دہشت گرد کہہ رہی ہیں۔ جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ امریکہ نے ان کا ویزا منسوخ کردیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران امریکہ سے تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔ برطانیہ میں وہ سیاسی پناہ کے طلبگار ہیں مگر وہاں کی زمین بھی ان کے لئے تنگ دکھائی دے رہی ہے۔ ان کے ایک بیٹے سجیب واجد ورجینیا (امریکہ) میں ہیں۔ مگر وہ چاہتے ہوئے بھی وہاں نہیں رہ سکتے۔ ان کا بھانجا رضوان مجیب صدیق جو بہن ریحانہ کا بیٹا ہے‘ ہلسنکی میں رہتا ہے۔ مگر اطلاع کے مطابق حسینہ اور ریحانہ متحدہ عرب امارات میں سیاسی پناہ چاہتی ہیں۔ آگے کیا ہوگا آنے والا وقت بتائے گا۔ فی الحال ہندوستان نے حالات کی نزاکت کے مدنظر بنگلہ دیش کی سرحدی علاقوں کی ناکہ بندی کردی ہے۔ ہند‘بنگلہ دیش سرحد 4096 کلومیٹر طویل ہے اس میں سے 2216 کلو میٹر مغربی بنگال سے لگی ہوئی ہے۔ سرحدی ریاستوں میگھالیہ، میزورم، آسام اور تریپورہ پر بی ایس ایف نے کڑی نظر رکھی ہے۔ بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد نے بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر مظالم اور مندروں کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بنگلہ دیشی ہندوؤں کو ہندوستان لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یاد رہے کہ مودی حکومت نے پہلے ہی پڑوسی ممالک کے ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت دینے کا قانون منظور کیا ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں ہندو آبادی کا 8.5فیصد حصہ ہے۔ جبکہ 90.5فیصد مسلمان ہیں۔ بنگلہ دیش نیشنل ہندو مہاجٹ کے جنرل سکریٹری گووندا ایڈوکیٹ نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں ہندوستانی ٹی وی چیانلس پر نفرت انگیز، گمراہ کن، پروپگنڈہ کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ حسینہ واجد حکومت کے خاتمہ کے بعد اندیشہ تھا کہ ہندوؤں پر کاروائی ہوگی‘ مگر یہ بی این پی اور جماعت اسلامی نے اپنے کارکنوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ہندو اور ہندو عبادت گاہوں کی حفاظت کریں۔ گووندا ایڈوکیٹ نے ریپبلک بھارت ٹی وی پر غلط پروپگنڈہ اور افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بنگلہ دیش میں ہندو پوری طرح سے محفوظ ہیں۔ اس وقت بنگلہ دیش میں 19000 ہندوستانی شہری ہیں جن میں سے 9000 طلبہ ہیں جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عوامی لیگ کے قائدین اور کارکنوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایک فلم پروڈیوسر سلیم جس نے شیخ مجیب الرحمن کی زندگی پر فلم بنائی تھی اُسے اس کے بیٹے کے ساتھ برہم ہجوم نے پیٹ پیٹ کر ہلاک کردیا۔ عوامی لیگ کے ٹکٹ سے کامیاب ہونے والے انٹرنیشنل کرکٹر اور اور بنگلہ دیش ٹیم کے سابق کپتان مشرف مرتضیٰ کے گھر کو نذر آتش کردیا۔ جب کبھی کسی ملک میں انقلاب آتا ہے تو اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں۔ 1971ء میں پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی ایسے ہی واقعات پیش آئے تھے۔
بنگلہ دیش کے طلبہ کی اس تحریک کی کامیابی کا اثر پاکستان پر یقینی طور پر ہوگا جہاں فوج اور شریف خاندان نے عمران خان کی پارٹی پر پابندی عائد کردی۔ عمران خان کو جیل میں بند کیا اور اپوزیشن قائدین پر جبر و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ معاشی طور پر پاکستان کو اس قدر کمزور کردیا گیا ہے کہ اسے بھکاری ملک کہا جارہا ہے۔ عمران خان جیل میں ہونے کے باوجود اب بھی پاکستانی سیاست پر چھائے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام نے یقینی طور پر پاکستانی عوام بالخصوص نوجوانوں کی سوئی ہوئی غیرت کو جگایا ہے اور اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں اسی قسم کے شورش کا آغاز ہوگا۔ فوج کو عمران خان سے سمجھوتہ کرنا ہوگا۔ اور یاتو شہباز شریف اور ان کے ارکان خاندان عوام کے عتاب کے شکار ہوں گے یا پھر انہیں پہلے کی طرح لندن کی راہ دکھائی جائے گی۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: