سماج میں پیسے کی حیثیت
سماج میں پیسے کی حیثیت
تحریر: مشتاق نوری
انگریزی میں کہا جاتا ہے Money is power and power is everything۔سادہ سا مفہوم یہ ہے کہ پیسہ طاقت ہے اور طاقت ہی سب کچھ ہے۔اگرچہ یہ بات روحانیت و معرفت کے اصولوں کے بر خلاف ہے مگر مادیت و صارفیت کے اس تیز رفتار دور میں چند اشیا کے استثنا کے ساتھ نوے فیصد درست بھی ہے۔اس سلسلے میں جب ہم احادیث کی طرف جاتے ہیں تو ہمیں اس طرح کی رہنمائی بھی ملتی ہے کہ اخیر زمانے میں دین کا کام بھی درہم و دینار سے ہی ہوگا۔یعنی خدائی کاز بھی لوگ مفت نہیں کریں گے اس کے لیے پیسے درکار ہوں گے۔دوسرا مفہوم یہ ہوگا کہ تبلیغ و ترویج دین کا کام بھی بنا پیسے کے نہیں ہوگا۔آج یہ سب ہو بھی رہا ہے۔آج تبلیغ دین و دفاع امت کا تمام تر انحصار پاور اور پیسہ پر ہی ہے۔ورنہ نہ قوم و ملت محفوظ ہے نہ دین کی سرحد سلامت ہے۔
یہ بات تو سچ ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہے مگر یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پیسہ بہت کچھ ہے۔خالی جیب بہت بھاری ہوتی ہے۔انسان چلتے ہوۓ لڑکھڑا جاتا ہے۔جیب بھری ہو تو جوش کا لیبل آسمان پر ہوتا ہے۔سماج میں آپ کس صف، کس مسند کے قابل ہیں، آپ کا شہ نشیں کہاں لگے گا، گھر میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہے یہ سب کچھ پیسے ہی طے کرتے ہیں۔والدین، برادر و خواہر، اہل و عیال، ان سب عزیز و و خونی رشتہ داروں کے نزدیک بھی آپ کے احترام و تقدس، پیار و اپناپن، ہونے نا ہونے کا معیار پیسوں سے ہی متعین ہوتا ہے دو چار مستثنات کے ساتھ۔آپ کی خوبی و خامی کی تشہیر و اشاعت بھی آپ کے پیسے ہی طے کرتے ہیں۔کوئی چند پیسے کی خاطر اپنا گردہ بیچ دیتا ہے وہیں کوئی پیسے دے کر اپنے لیے گردہ خرید لیتا ہے۔جانبین کے محرک پیسے ہی ہیں۔کوئی ہیرا چور ہونے کے باوجود سماج کا معزز شخصیت کہلاتا ہے۔اسی سماج میں کوئی بھوک کے آزار کا سامان کرنے کے لیے کھیرا چوری کر لے تو وہ زندگی بھر چور چور کے طعنے سنتا ہے۔
پڑوسی ملک کے ایک شاعر نے میرے احساسات کی ترجمانی اس طرح کی ہے کہ
جب سے ہم چار پیسے کمانے لگے
اہل دنیا تو سر پر بٹھانے لگے
حیثیت سے ہیں وابستہ رشتے سبھی
یہ سمجھنے میں ہم کو زمانے لگے
عدل و ایماں، متاع دکاں ہو گئے
لوگ ان کی بھی بولی لگانے لگے
سماج کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ آپ کتنے پارسا ہیں،کتنے خدا ترس ہیں، کتنے اچھے عالم ہیں، کتنے بڑے دانشور ہیں۔یہ دنیا بس یہ دیکھتی ہے کہ آپ کی جیب میں پیسے کتنے ہیں۔آپ کی معاشی و مالی اسٹیٹس کیا۔پیسے سے آپ کے جرم و کارنامہ،گناہ و بے گناہی،سزا و جزا، مقام و منصب،تعلق و لاتعلقی، توجہ و بے توجہی، شرافت و رذالت کا درجہ متعین ہوتا ہے۔آپ کے خلوص کی کوئی قیمت نہیں، فلوس ہے تو بڑی قمیت مل جاتی ہے۔فلوس پر خلوص کو اولیت دینے والے معدودے لوگ ہیں جو نایاب نہیں، تو کمیاب ضرور ہیں۔
کارل سنڈبرگ (Carl Sandberg) کہتے ہیں:
money is power, freedom, cushion, the root of all evil,the sum of blessings
کارل کی باتیں سمجھنے کے لیے ہمیں زیارہ سر کھپانے یا دور نکلنے کی قطعی ضرورت نہیں، بس ہم اپنے ملک کے دو بڑے تاجر (اڈانی و امبانی) کے اقبال و رسائی کو دیکھ لیں کافی ہے۔یہ دونوں پیسوں کے بل پر مسند اقتدار پہ براجمان مہارتھی کو بھی اپنی جیب میں رکھتے ہیں۔سیاست کے بڑے بڑے مہرے ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ایڈمنسٹریشن انہیں سلامی ٹھونکتا ہے۔ان کی بے سر پیر کی بات بھی exclusive news بنا کر چلائی جاتی ہے۔یہی money power ہے۔
سماج میں برائی جنم لینے و کرائم پنپنے کے دو راستے ہیں دونوں کا تعلق پیسے سے ہی ہے۔(۱) پاپی پیٹ کے لیے۔(۲) دولت کی ہوس پوری کرنے کے لیے۔اول الذکر اتنا برا نہیں ہے جتنا کہ ثانی الذکر۔اول پیٹ کے خندق کو بھرنے کے لیے جرم کا راستہ اختیار کرتا ہے۔مگر ثانی اپنی ہوس کا محل تعمیر کرنے کے لیے ان ہی مفلس و گمراہ لوگوں کو حصول دولت کا ذریعہ کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ستم بالاۓ ستم کہئے کہ سماج کی نظروں میں مجرم صرف اول ہی ٹھہرایا جاتا ہے ورنہ ثانی کے چہرے پر دولت کا اتنا رنگین مکھوٹا چڑھا ہوتا ہے لوگوں کی آنکھیں مبہوت رہتی ہیں۔وہ اصل مجرم ہو کر بھی سماج کا عزت دار شہری کہلاتا ہے۔سماج جان بوجھ کر ان کے مکھوٹے نوچنا نہیں چاہتا۔یہی money power ہے۔
بالی ووڈ کی کسی مووی کا ایک گیت ہے جس کے بول ہیں عیسی پیر نہ موسی پیر، سب سے بڑا ہے پیسہ پیر۔اس گانے کا ایک مطلب جو مجھے سمجھ میں آ رہا ہے وہ یہ کہ ایک عالم دین و پابند شرع آدمی اگر پیر بن بھی جاۓ تو اس قدر رسپانس نہیں مل پاتا جتنا ایک تام جھام میں رہنے والا کم خواندہ فاسق پیر کو ملتا ہے۔لوگ پیر و مرشد کی گاڑی اور جبہ پگڑی کا ہائی پروفائل اسٹیٹس دیکھ کر ہی پروٹوکول طے کرتے ہیں۔
پیسے سے چہرے کا رنگ بدل جاتا ہے۔ پژمردہ چہرہ کا غم الگ ہوتا ہے۔مسکراتے چہرے کا رنگ بالکل مختلف۔دولت کی ریل پیل ہے تو پیری میں بھی شباب جھلکتا ہے۔ورنہ پیسے کی قلت نے کتنے عنفوان شباب پر بڑھاپا طاری کر دیا ہے۔ایک غریب حق پر ہونے کے باوجود مقدمہ ہار گیا اور بے آبرو ہو کر لوٹا اور امیر شہر نے بھری عدالت میں کالے کوٹ کے سہارے انصاف خرید لیا باعزت بری کر دیا گیا، اس کے پیچھے بھی وہی پیسہ کار فرما ہے۔اگر نباش، مکفون و مدفون کا کفن چرا کر بازار میں فروخت کرنے بیٹھا ہے اس کے پیچھے بھی پیسے کا ہی ہاتھ ہے۔کسی چودھری کے محل پر کوئی شریف زادی مجرا کرنے پر مجبور ہے تو اس کے پیچھے بھی پیسے کا ہی ہاتھ ہے۔اگر بھائی غربت زدہ ہے تو لوگ اس سے اپنا رشتہ بتانا بھی گوارہ نہیں کرتے۔دور کے امیر کبیر سے تعلق جوڑنے میں فخر سمجھتے ہیں۔یہی پیسے کی طاقت ہے۔
بسا اوقات کہا جاتا ہے کہ پیسہ سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں۔مجھے اس مقولے سے بھی کلیۃ اتفاق نہیں ہے۔بلکہ پیسے سے زندگی کی نوے فیصد خوشیاں خریدی جا سکتی ہیں۔محض دس فیصد میں ہی پیسے کا زور نہیں چل پاتا۔کئی بار ہم نے تجربہ کیا، آس پاس کا منظر مشاہدے میں آیا کہ لوگ پیسے کے دم پر مشکل کو آسان کر لیتے ہیں۔یہاں تقریب ذہن کے لیے میں اپنے دو ذاتی مشاہدے پیش کرتا چلوں۔
- میرے پڑوس کے ایک زمین دار شخص نے اپنی معذور لڑکی کے لیے ۲ ایکڑ زمین کا آفر دے کر ایک اچھے لڑکے کو داماد فائنل کیا۔وہ بھی ایسی لڑکی جو ذہنی و جسمانی دونوں اعتبار سے مفلوج تھی۔ہر وقت منہ سے رال ٹپکتی رہتی تھی۔مگر دولت مند باپ نے معذور بیٹی کے لیے اچھا لڑکا خرید لیا۔(بیٹی خواہ کیسی بھی ہو ہر باپ کی تمنا ہے کہ اسے اچھا شوہر ملے)وہیں غریب کی حسین صورت بیٹیاں کسی لڑکے کے منتظر ہیں جو انہیں نکاح کے بندھن میں باندھ لے جاۓ مگر برا ہو اس سماج کا، خاک پڑے لڑکے والوں پر کہ کوئی آتا بھی ہے تو ڈیمانڈ لسٹ جیب میں لے کر ہی آتا ہے۔یہی پیسے کی طاقت ہے۔
- یہی کوئی ۲۰۱۴ کی بات ہے ہم برادران والد گرامی (جو اب مرحوم ہو گئے ہیں، خدا ان کی مغفرت فرمائے) کو شہر کے بڑے ڈاکٹر موہن لال جین کے مطب لے گئے تھے واپسی میں پڑوسی گاؤں کے دو باپ بیٹا ہماری ہی گاڑی سے گھر آۓ۔باپ کو مرض قلب لاحق تھا۔ڈاکٹر نے چیک اپ اور جانچ رپورٹس دیکھنے کے بعد کہا کہ اس کا فوری آپریشن کرنا پڑے گا۔ڈھائی لاکھ خرچہ آۓ گا۔ایک غریب کے لیے یہ بہت بڑی رقم تھی۔بیٹا اپنی بے بسی پر بار بار روۓ جا رہا تھا۔دونوں باپ بیٹا ہزار پندرہ سو کی دوا لے کر واپس آ گئے۔صرف اس لیے کہ روز کمانے کھانے والا آدمی ڈھائی لاکھ کا انتظام کہاں سے اور کیسے کرے گا ۔سو اس نے مر جانے کو ہی ترجیح دی۔سوچئے ایک آدمی صرف اس لیے موت کے قریب ہو رہا ہے کہ اس کے پاس پیسے کی تنگی ہے۔اگر دولت مند ہوتا تو علاج کروا کر ہی لوٹتا۔یہی پیسے کی طاقت ہے۔پیسہ اگرچہ سب کچھ نہیں ہے مگر بہت کچھ ہے۔
یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ سکندر، قارون، ہامان،شداد و فرعون کے پاس جتنی دولت تھی آج عالمی تجارت کے وسیع تر ذرائع کے باوجود بھی کسی global entrepreneur پاس نہیں۔سکندر و قارون میں سے کوئی بھی ایک پھوٹی کوڑی بھی اپنے کفن کے ساتھ نہیں لے جا سکا۔یہ سب کچھ جاننے سمجھنے کے باوجود انسان صرف پیسوں کا غلام ہے۔کیا آخرت کی زندگی کی کوئی اہمیت نہیں؟ایسی تقریر کرتے و تحریر لکھتے ہم لوگ بہت بھلے لگتے ہیں مگر جب اپنے ہی سماج میں متورع عالم دین کو چھوڑ کر کسی فاسق معلن و فاجر بدقماش کو مسجدوں، درگاہوں و مذہبی اداروں کے صدر سیکریٹری و خزانچی بنایا جاتا ہے تب ساری ملائیت دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔سماج ہماری تقریر و تحریر تھوڑے وقفے کے لیے جذباتی تو ہو جاتا ہے مگر عامل نہیں ہو پاتا۔مطلب پیسے کو سلام ہے انسان تو بس بیکار ہے۔
پیسے کی ریس میں اہل مذہب کے پچھڑنے کے کئی اسباب تھے۔کچھ عقیدت مندانہ سلوگن بھی رائج رکھے گئے ہیں جو شرعی حقائق سے پرے ہیں۔ان میں دو چار باتیں اس قسم کی اڑتی یا اڑائی جاتی ہیں کہ پیسہ تو ہاتھ کا میل ہے۔غربت میں عظمت ہے۔قلندر ہی سکندر ہوتا ہے۔ملنگ ہی بادشاہ ہوتا ہے۔قناعت پسندی ہی معرفت کا ذریعہ ہے۔حضور نے اپنی زندگی غربت میں گزار دی وغیرہ۔ان میں آخری بات بہت ہی خطرناک ہے بلکہ میری نظر میں یہ ذات رسالت پر ایک الزام ہے۔ہمارے صوفیا نے تو "الفقر فخری” کو اتنا رپیٹ کیا ہے کہ یقینی طور پر اہل مذہب کا ایک بڑا حلقہ اسے عین دین سمجھ بیٹھا ہے۔جب کہ فقر و تنگ دستی ایک عیب ہے۔اسے رسول کی ذات سے منسوب کرنا عشق و حقانیت کے خلاف بھی ہے۔جس پیغمبر نے "ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ” جیسی قرانی دعا کثرت سے مانگی ہو ان کی شان میں فقر جیسی باتیں روا نہیں لگتیں۔