شکوہ کریں تو کس سے کریں!
(یونیفارم سول کوڈ کے پس منظر میں)
تحریر:ڈاکٹر محمد طارق ایوبی
ملک میں ایک بار پھر سے یکساں سول کوڈ کا مسئلہ گرمایا ہوا ہے، ٹیلی ویژن اور مسلمانوں کے حلقوں میں اس کے سب سے زیادہ اثرات نظر آ رہے ہیں، ہم پہلے بھی کئی بار لکھ چکے ہیں کہ یہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ ہے ہی نہیں، گرچہ اس سے سب سے زیادہ متأثر مسلمان ہی ہوں گے، کیوں کہ مسلمانوں کی شریعت ہی ناسخ ہے، وہی برحق ہے، اس میں انسانی مداخلت کی کوئی گنجائش ہے ہی نہیں، اکملت لکم دینکم کی سند اسی کے پاس ہے، و لن تجد لسنۃ اللہ تبدیلاً اور و لن تجد لسنۃ اللہ تحویلاً، کا مصداق وہی ہے، تمت کلمۃ ربک صدقاً و عدلاً ،کہہ کر حقیقت و مصداقیت و کمال اور انصاف کے تمام تقاضوں کو برتنے کی سند اسی کے پاس ہے۔اس لیے اس میں کسی طرح کی مداخلت اور تغیر و تبدیلی کا کسی کو کوئی اختیار ہے ہی نہیں، انسانی قانون سازی کو بھی ان الحکم الا للہ اور اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کہہ کر ایک دائرہ میں محدود کر دیا گیا ہے، لہذا مسلمان شرعی و عائلی قوانین سے دست بردار ہو جائیں، اس کا کوئی امکان ہے ہی نہیں، جو دست بردار ہوگا وہ خود اپنے ایمان سے جائے گا، یہ بھی واضح حقیقت ہے کہ اگر کوئی مسلمان یونیفارم سول کوڈ کے آنے کے بعد بھی اپنی شریعت پر عمل کرنا چاہے گا تو اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی اور نہ کرنا چاہے تو آج عائلی قوانین کو تحفظ حاصل ہونے کے بعد بھی نہیں کرتا ہے،تو اسے کون مجبور کر پاتا ہے۔ اس مضمون میں اصلاً اسی پہلو پر گفتگو مقصود ہے، میں جب یہ کہتا ہوں کہ یو نیفارم سول کوڈ اس ملک میں نافذ نہیں ہو سکتا تو اس بنیاد پر کہتا ہوں کہ پوری دنیا میں کہیں نافذ نہیں ہو سکا، صرف سوویت یونین میں ہوا تو پوری آبادی کو ۹۰؍سالوں تک قید خانہ میں تبدیل کر کے رکھنا پڑا، پھر یونیفارمٹی لانے والی تحریک ونظریہ اور استبدادی حکومت سب بکھر گئی، یہ محض ایک سیاسی مدعا ہے، جو وقت اور حالات کے مطابق اٹھایا جاتا ہے۔
سوچیے ذرا کہ جب وزیر داخلہ نے یہ کہہ دیا کہ آدی واسی اور قبائل کو مستثنیٰ رکھنے پر غور کیا جائے گا، تو کیا یہ بات واضح نہیں ہو گئی کہ محض سیاست ہو رہی ہے، اگر دو طبقے مستثنیٰ کر دیئے جائیں گے تو بقیہ احمق ہیں جو اسے قبول کر لیں گے؟ سکھ، عیسائی، اور دیگر مذاہب بھی مسترد کر دیں گے، کسی کو حکومت مستثنیٰ کر دے یا کوئی خود مسترد کر دے، اس کے نتیجے میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکومت کی منشا یونیفارمٹی اور یکسانیت کی نہیں بلکہ اینٹی مسلم سول کوڈ کی ہے، مسلم مخالف سول کوٖڈ کی ہے، اب ایسی صورت میں مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہوگا، یہ سوچنے کا اصل موضوع تھا، لیکن ہمیں ہر اڑتا تیر اپنے اوپر لینے کی عادت ہے، ہم شعوری یا غیر شعوری طور پر ایسی مہم کا حصہ بن جاتے ہیں، جس سے راست فائدہ ظالم کو پہنچتا ہے۔
مرکزی حکومت پر قابض جماعت کے سامنے ۲۰۲۴ء کا چیلنج تھا، اس کے مستقبل کا منظر نامہ دھندلا تھا، حالات اچھے نظر نہیں آرہے تھے، اس نے وزیر اعظم کو پھر ایک طاقت ور شخصیت کے روپ میں پیش کرنے کے لیے ایک ایسا موضوع چھیڑا، جس پر گفتگو کرنے میں اب تک ہر سربراہ احتیاط برتا کرتا تھا، کیوں کہ ہندوتوا کے علمبرداروں کی طرف سے تأثر یہ دیا جاتا ہے کہ جو کام اب تک کوئی نہ کر سکا وہ سب موجودہ وزیر اعظم کر رہے ہیں، وہ آگ سے کھیلنے کی ہمت رکھتے ہیں اور ہر نا ممکن کو ممکن بنانے کا ہنر رکھتے ہیں، اس کے برعکس کرناٹک کی شکست اور اڈانی کے ایشو نے بڑے مسائل کھڑے کر دیئے تھے، مہنگائی سے ڈسے جانے کا خوف ستا رہا تھا، اچانک لاء کمیشن کے ذریعہ یونیفارم سول کوڈ پر رائے مانگ لی گئی، پھر کیا تھا، یکسر سارے موضوعات پردے سے غائب ہو گئے، صرف یہی موضوع زیر بحث آگیا، ایک طرف اس کو ترقی و اتحاد کا جادوئی نسخہ باور کرانے کی کوشش کی گئی تو دوسری طرف مخالفت کی مہم چلائی گئی، نتیجہ یہ نکلا کہ میڈیا اور دائیں بازو کے ہندوؤں نے عام شہریوں کو یہ سمجھانا شروع کر دیا کہ ملک کے وزیر اعظم جب بھی ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ مسلمان روڑا بن جاتے ہیں، اس موقع پر ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا اور ہم نے کیا کیا؟ یہ ایک سوال ہے جس کے جواب مختلف ہو سکتے ہیں۔
جس وقت یہ موضوع چھڑا اس وقت ہماری قوم میں ایک غیر ضروری بحث چھڑی ہوئی تھی اور ایک غیر متوقع اور غیر اخلاقی جشن کا سماں تھا، بہر حال اسی دوران لاء کمیشن نے رائے مانگی، پھر ذمہ داران نے یہ طے کیا کہ اس کے خلاف NO TO UCC کی ای میل مہم چلائی جائے، پہلے سے ہی یونیفارم سول کوڈ ہمارے بیانات کا حصہ بن گیا اور لوگ اس کی مخالفت اور دفاع کو ترجیحات میں شامل بتانے لگے، پوری قوت کے ساتھ بار کوڈ اسکین کرنے کی اور ای میل مہم چلائی گئی ، جگہ جگہ اپیلیں کی گئیں، لیٹر پیڈ جاری کیے گئے، سوال یہ ہے کہ ای میل کی تعداد سےکیا فرق پڑے گا؟ لاء کمیشن نے رائے مانگی تھی یا ریفررنڈم کرایا تھا؟ اگر ہم بہت ای میل کرا لیں گے تو ۵؍کروڑ، ۱۰؍کروڑ، لیکن غنیم کا تو ووٹ بینک ہی اس سے تین گنا زیادہ ہے، پھر تعداد میں تو ہم بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ بقول ایک بڑی جماعت کے مرکزی ذمہ دار کے اگر ہم ۵؍ملین ای میل بھی کرالیں گے تو آخر میں حکومت کہے گی کہ بھارت کے صرف ۵؍فیصد مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی ہے، حیرت تو یہ ہے کہ وہ بڑی جماعت بھی بورڈ کی اس مہم میں شامل ہے اور اس نے بھی بار کوڈ کو جاری کر کے اپیل کی، لیکن اسی کے ایک مرکزی ذمہ دار نے خطبۂ جمعہ اور پھر ایک تبصرے میں اس اسٹراٹیجی کو غلط ٹھہرایا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ لاء کمیشن نے رائے مانگی تھی تو ہمارے نمائندہ ادارے، نمائندہ شخصیات اور نمائندہ تنظیمیں دانشورانہ، علمی اور قانونی رائے قدرے تفصیل سے بھیج دیتیں اور پھر اگلے مرحلہ کا انتظار کرتیں اور اس کے لیے منصوبہ تیار کرتیں۔ سرِ دست غیر مسلم طبقات سے رابطہ کرتیں اور ان سے زیادہ تعداد میں مخالفت میں رائے دلواتیں، حکومت کے اس پروپیگنڈہ کا پوسٹ مارٹم کرتیں اور غیر مسلموں کو باور کراتیں کہ UCC کا ملک کی تعمیر و ترقی اوراتحاد سے کوئی تعلق نہیں، اچھے خاصے سادہ لوح عوام UCC کو جادوئی نسخہ سمجھ رہے ہیں۔ یوں بھی پروپیگنڈے میں بڑی طاقت ہوتی ہے اور بر سر اقتدار گروہ اس میں یدِ طولیٰ رکھتا ہے، لیکن نہیں! سرِ دست کرنے کے کام نہیں کیے گئے یا بہت کم ہوئے، گذشتہ تجربہ سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، ۵؍کروڑ دستخطوں کے انجام سے سبق نہیں سیکھا گیا، اڑتا تیر اپنے اوپر لے کر بار کوڈ کی مہم چلائی گئی، غنیم کی حکمت عملی کامیاب رہی، اس نے بھی مہم چلائی، ساتھ ہی اس نے اپنی فطرت کے مطابق UCC کو بھی ہندو مسلم ایشو بنا دیا، ۱۴؍تاریخ آخری تاریخ تھی، غنیم کو احساس ہوا کہ ابھی لوگوں کو اس میں مزید الجھا کر رکھنا چاہیے، ابھی ہندو بنام مسلم کا موضوع پوری طرح گرمایا نہیں ہے، ابھی مقصد پورا نہیں ہوا ہے تو اس نے دو ہفتے کی مدت مزید بڑھا دی۔ یاد رکھنا چاہیے کہ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے اگر اینٹی مسلم کوڈ لانے کی ٹھان لی ہے تو وہ ۲۰۲۴ء کے الیکشن سے پہلے لا کر رہیں گے۔ اصل میں ہمیں اس کے بعد کے احتجاج و اسٹراٹیجی پر غور کرنے کی ضرورت ہے، فی الوقت حکومت پر ہماری مہم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، اگر اس نے ٹھان لیا تو کر کے رہے گی اور اگر صرف سیاسی چال چلی ہے تو ہماری مہم اس کی چال کو کامیاب بنانے میں معاون ہوگی۔
اب آئیے! دوسرے پہلو کی طرف، اس پہلو پر میں پہلے بھی گفتگو کر چکا ہوں، لیکن یہ وہ موضوع ہے جس پر بار بار گفتگو کرنا چاہیے، حضرت مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی حسنی ندویؒ فرمایا کرتے تھے۔
’’لیکن جب ہم اپنی حکومت اور برادرانِ وطن سے شکایت کرتے ہیں تو ہمیں آپ سے شکایت کرنے کا حق کیوں نہ ہو؟ اُن سے شکایت کریں گے اور ان کا دامن پکڑیں گے، لیکن آپ کا گریبان پکڑ لیں گے اور وہ ہاتھ ہمارا ہاتھ نہیں ہوگا، وہ دینی احتساب کا ہاتھ ہوگا، وہ شریعت کا ہاتھ ہوگا جو آپ کا گریبان پکڑے گا اور کہے گا کہ پہلے تو اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھو کہ تم اس قانون پر کتنا چلتے ہو، تمھاری نگاہوں میں اس قانون کی کتنی حُرمت ہے؟
تم جہاں اس قانون کو چلا سکتے ہو وہاں چلا رہے ہو کہ نہیں؟ تم اپنے گھروں میں اس قانون کو نہ چلاؤ اور حکومت سے مطالبہ کرو کہ وہ تمھارے قانون کو چلائے، اس کا احترام کرے، یہ کیا بو العجبی ہے؟‘‘ [جہد مسلسل، ص ۱۵۶، ۱۵۷]
یہ شریعت ہمیں عمل کے لیے عطا کی گئی ہے، دنیا میں کہیں بھی عائلی قوانین کو وہ تحفظ حاصل نہیں جو بھارت کے مسلمانوں کو شریعت ایکٹ کے تحت حاصل تھا اور جس کی بنیاد پر مسلم پرسنل لاء بورڈ قائم تھا، لیکن یہ بد قسمتی کہیے کہ ہم نے خود ہی اپنے عائلی قوانین کو کب سینے سے لگایا؟ ہم نے کب شریعت پر عمل کیا اور دوسروں کو اس کی دعوت دی؟ ہم نے کب میراث کو شریعت کے مطابق تقسیم کیا؟ ہم نے بہن بیٹیوں کو کب ان کا من جانب اللہ مفروض حصہ دیا؟ کیا یہ واقعہ نہیں کہ نکاح، طلاق اور وراثت جیسے مقدمات سے عدالتیں پٹی پڑی ہیں؟ کیا یہ واقعہ نہیں کہ جو لوگ قانونِ شریعت سے بھی واقف ہیں، جن کے سامنے قرآن کھلی ہوئی کتاب ہے، جو قانونِ شریعت پر عمل کی دعوت دیتے ہیں، جو اسلامی نظامِ قضا کی مہم چلاتے ہیں، جو حق و ناحق کی تمیز رکھتے ہیں ، تحفظ شریعت کی مہم تو چلاتے ہیں، لیکن وہ بھی اپنے اختلافات و مسائل حل کرانے کے لیے سیکولر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں، حالانکہ اللہ نے شریعت تحفظ کے لیے نہیں عمل کے لیے اتاری تھی۔ ارشاد باری ہے: ثُـمَّ جَعَلْنَاكَ عَلٰى شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلَا تَتَّبِــعْ اَهْوَآءَ الَّـذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّـھُـمْ لَنْ يُّغْنُـوْا عَنْكَ مِنَ اللّـٰهِ شَيْئًا ۚ وَاِنَّ الظَّالِمِيْنَ بَعْضُھُـمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ وَاللّـٰهُ وَلِىُّ الْمُتَّقِيْنَ هٰذَا بَصَآئِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّ رَحْـمَةٌ لِّـقَوْمٍ يُّوْقِنُـوْنَ۔ [الجاثیہ: ۱۸، ۱۹، ۲۰]
(پھر اے رسول ﷺ اللہ نے آپ کو خاتم الانبیاء و الرسل بنایا اور آپ پر جو وحی اتاری ہے، اسی کی پیروی کیجیے، اسی پر عمل کیجیے اور اسی کی دعوت دیجیے۔ نادانوں، گمراہوں اور کتاب و سنت سے اعراض کرنے والوں کی خواہشات پر توجہ مت دیجیے۔ جو نہ حق کا علم رکھتے ہیں، نہ اس پر عمل کرتے ہیں اور نہ اس کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ یہ آیت اس کی دلیل ہے کہ شریعت اسلامیہ ایک مسلمان کے لیے کافی ہے۔ اس کی اتباع ہر مسلمان پر واجب ہے۔ ہر اس مذہب سے اس کو بے نیاز ہونا چاہیے، جو شریعت اسلامیہ کے مخالف و معارض ہو۔
یہ کافر آپ سے اللہ کے عذاب کا کچھ بھی دفاع نہیں کر سکتے، اگر آپ ان کے باطل میں ان کی موافقت کریں گے اور ان کی گمراہی میں ان کا اتباع کریں گے تو یہ آپ کو بچا نہ سکیں گے۔ حد سے گزرنے والے، گناہوں میں ڈوبنے والے مجرم کافر، منافق، یہود اور نصاریٰ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں، ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، موافقت کرتے ہیں، جب کہ اللہ پرہیزگاروں اور متقیوں سے محبت کرتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے، ان کا دفاع کرتا ہے، دنیا و آخرت میں ان کی سر پرستی فرماتا ہے۔ اللہ کا قرب صرف اس کی اطاعت سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہ قرآن جو بذریعہ وحی نبی ﷺ پر نازل کیا گیا ہے یہ بڑا بصیرت افروز ہے، خدا کے بندے اس سے راہِ حق کی رہنمائی پاتے ہیں۔ ہر خیر کی اس سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، اس کے ذریعہ ہدایت و گمراہی میں تمیز کرتے ہیں۔ یہ اس کے لیے سراپا رحمت ہے جو اس پر ایمان لاتا ہے ، اس کے تقاضوں پر عمل کرتا ہے اور اس کا راستہ اختیار کرتا ہے۔)
’’ اس آیت کے سیاق پر غور کیجیے! پہلے بنی اسرائیل کو انعامات و نوازشات سے نوازنے کا ذکر کیا گیااور فرمایا گیا کہ انھیں دین کے باب میں کھلی ہوئی دلیلیں دی گئیں۔ حکمت و نبوت اور انعامات سے نوازا گیا، لیکن پھر انھوں نے دنیا پرستی کے سبب دین کو نافذ کرنے کے بجائے دین میں اختلاف کیا۔اس کے حصے بخرے کر ڈالے، کوئی روکنے ٹوکنے والا نہ رہ گیا۔ دنیا کے لیے دین کو استعمال کیا جانے لگا،آپس میں حسد و جلن اور دنیا داری کے سبب دین کو مسخ کر ڈالا۔ جب وہ راہِ حق سے ہٹ گئے۔ صراطِ مستقیم کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہا تب خاتم الانبیاء کو دین و شریعت دے کر بھیجا، خود نبی اکرم ﷺ کو اس اتباع و نفاذ کا تاکیدی حکم دے کر واضح کر دیا کہ اب اس کے مقابلے میں کامیابی کا ہر دعویٰ باطل ہوگا۔ ہر نظریہ عبث اور فاسد ہوگا۔ شریعت کی مخالفت کر کے نجات و کامیابی اور قرب و کمال کے کسی دعوے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کا مدار بس یہی شریعت ہوگی ۔ اس کی قطعیت و ابدیت ، حتمیت و ناسخیت پر تو خود سیاقِ کلام دلیل ہےکہ اب اس کے بعد کوئی دین اور کوئی شریعت نہیں۔ دنیا و آخرت کی کامیابی اسی شریعتِ محمدی کی اتباع میں مضمر و منحصر ہے۔ اس کو لانے والے خاتم النبیّین حضرت محمد ﷺ ہیں اور ان کی لائی ہوئی شریعت ناسخ ہے۔ اب اہل کتاب کے اس خیال کی کوئی حیثیت نہیں کہ ان کی کتاب و شریعت کے ہوتے ہوئے کسی نئی کتاب و شریعت کی کیا ضرورت؟ اگر وہ گذشتہ آیات میں بیان کی گئی اپنی صورت حال پر نظر ڈال لیں اور حقیقت پسندانہ جائزہ لے لیں تو بات واضح ہو جائے گی کہ آخری نبی کی قطعی و حتمی شریعت دے کر کیوں بھیجا گیا اور کن تقاضوں کے پیشِ نظر دین کو مکمل کرنے کے لیے آخری نبی کو مبعوث کیا گیا۔ شریعتِ محمدی کے ہوتے ہوئے ایک مسلمان کو دیگر تمام مذاہب و نظریات سے بے نیاز ہونا چاہیے اور اس کی اتباع کو واجب سمجھ کر اس کے مکمل نفاذ کی تگ و دو کرنی چاہیے۔‘‘ [آسان تفسیر قرآن، تعلیق و ترجمہ داکٹر محمد طارق ایوبی، ص ۹۵۰، ۹۵۱]
اگر شریعت پر عمل کیا جائے تو قرآن عمل کرنے والوں کے تحفظ کی ضمانت لیتا ہے۔
يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ [محمد: ۷]
’’اے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والو! اگر تم اللہ کی اطاعت کر کے، اس کے رسولﷺ کی اتباع کر کے، اس کی شریعت پر عمل کر کے اور اس کے راستے میں جان و مال اور زبان و قلم سے جہاد کر کے اللہ کی مدد کروگے تو اللہ تمھارے دشمنوں کے مقابلے میں تمھاری مدد فرمائے گا اور تمھیں غلبہ عطا فرمائے گا۔ میدانِ جنگ میں تمھیں ثابت قدمی عطا فرمائے گا اور تم پر روحانی و جسمانی سکون نازل فرمائے گا، تاکہ تم جم سکو اور پسپائی نہ اختیار کرو۔‘‘ [آسان تفسیر قرآن، ص ۹۶۳، ۹۶۴]
جب خدا کی نعمتوں کی قدر نہیں کی جاتی ہے، کھلے عام اس کے احکام کی مخالفت کر کے نا قدری کی جاتی ہے تو پھر خدا کی طرف سے تنبیہ و گرفت یقینی ہے، جا بہ جا گذشتہ قوموں کے کردار بیان کر کے قرآن مجید نے اپنے مخاطبین کو متنبہ اور متوجہ کیا ہے۔
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْھِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُمْ بَغْتَةً فَإِذَا هُمْ مُبْلِسُونَ [الانعام: ۴۴]
’’جب انھوں نے ہماری نافرمانی کی، ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان آزمائشوں کو بھی فراموش کر دیاجن میں انھیں مبتلا کیا گیا تھا، سختیوں اور آزمائشوں نے بھی ان کو ہماری جانب متوجہ نہ کیا تو ہم نے ان پر خوش حالی کے دروازے کھول دیے۔ ان کے لیے ہم نے خوب دنیا دی، مال و دولت کی ریل پیل کر دی، خوب اولاد اور جسمانی صحت سے نوازا یہاں تک کہ وہ اپنی دنیا ، خوش عیشی اور مال و دولت میں مست و مگن ہو گئے، دنیا کی لذتوں میں کھو گئے، عیش و طرب کے متوالے ہو گئے، خوش حالی کے فریب میں پڑ گئے، پھر اچانک ہم نے ان کی گرفت کی اور ان پر عذاب مسلط کر دیا، ان سے ساری نعمتیں چھین لیں اور ان کو سخت سزا دی ۔ خیر کا سلسلہ ہی روک دیا، وہ ہمارے ہر فضل و نعمت سے محروم ہو گئے اور سب کچھ کھو بیٹھے۔‘‘ [آسان تفسیر قرآن، ص ۲۶۹]
سورۃ المائدہ میں خدا تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کو اپنی کتاب اور اس کے احکام کی صریح مخالفت کرنے پر سخت پھٹکار لگائی ہے، ایک آیت میں فأولئک ھم الکافرون کہا ہے۔ دوسری آیت میں الظالمون اور تیسری آیت میں جو نصاریٰ سے متعلق ہے اس میں الفاسقون سے ان کے عمل کو تعبیر کیا ہے۔ مفسرین نے ان الفاظ کے باہمی فرق پر گفتگو کی ہے، جس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں، توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ قرآن مجید بنی اسرائیل کی تفصیل اس لیے بیان کرتا ہے، ان کے عروج و زوال کی کہانی اس لیے سناتا ہے، اسباب زوال و لعنت پر روشنی اس لیے ڈالتا ہے، تاکہ امت مسلمہ قرآن کے صاف شفاف آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھے، اپنا کردار و ہدف متعین کرے اور ان چیزوں سے بچے جن کے سبب بنی اسرائیل کو افضلیت کے مقام سے معزول کر دیا گیا اور ان پر لعنتیں برسائی گئیں، ان کی بابت کہا گیا :
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَھُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا [النساء: ۵۲]
(ان پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ کی لعنت جس پر ہو، اس کا تم کو (قیامت میں) کوئی مددگار نہیں ملے گا۔)
اور ان پر لعنتیں برسانے کے بعد بنی اسماعیل کی سیادت و افضلیت کا اعلان کر دیا گیا:
اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلٰى مَآ اٰتَاهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ فَقَدْ اٰتَيْنَـآ اٰلَ اِبْرَاهِيْـمَ الْكِتَابَ وَالْحِكْـمَةَ وَاٰتَيْنَاهُـمْ مُّلْكًا عَظِيْمًا [ النساء: ۵۴]
(کیا یہ لوگوں سے حسد اس لیے کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کو اپنے فضل سے نوازا ہے، ہاں ہم نے ابراہیم کی اولاد کو کتاب و حکمت سے نوازا ہے اور ان کو عظیم الشان اقتدار عطا کیا ہے۔)
ان تفصیلات کو پڑھیے اور قرآن کے حقیقت پسندانہ تجزیہ کی روشنی میں اپنا کردار طے کیجیے۔
اِنَّـآ اَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيْـھَا هُدًى وَّنُوْرٌ يَحْكُمُ بِـھَا النَّبِيُّوْنَ الَّـذِيْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّـذِيْنَ هَادُوْا وَالرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ كِتَابِ اللّـٰهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُھَدَآءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ۔ [المائدۃ: ۴۴]
(ہم نے تورات اتاری تھی، اس میں ہدایت اور روشنی تھی، جو انبیا اسلام کے علمبردار تھے اور جو ربانی اور جید علماء تھےوہ اسی تورات کے حوالے سے ان یہودیوں کے مقدمات کا فیصلہ کرتے تھے، کیوں کہ ان پر تورات کی حفاظت کی ذمہ داری ڈالی گئی تھی اور وہ اس کے گواہ و نگراں تھے، اس لیے ان لوگوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، مجھ سے ڈرو اور میری آیتوں کا دنیا کی حقیر پونجی سے سودا مت کرو اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ کافر ہیں)
وَكَتَبْنَا عَلَيْـھِـمْ فِيْـھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهٖ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّـهٝ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الظَّالِمُوْنَ۔ [المائدۃ : ۴۵]
(ہم نے ان پر یہ قانون عائد کیا تھا کہ جان کا بدلہ جان ہے، آنکھ کا بدلہ آنکھ اور ناک کا بدلہ ناک اور کان کا بدلہ کان اور دانت کا بدلہ دانت اور جو زخم بھی ہوں ان میں قانونِ قصاص (برابری اور مساوات کا) جاری کیا جائے گا، جو اپنے مطالبے کو چھوڑ دے اور حق کا صدقہ کر دے تو یہ اس کے لیے کفارۂ سیئات ہوگا اور جو لوگ بھی اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کریں گے (نظامِ حکمرانی اور نظامِ عدالت اس کے مطابق نہیں بنائیں گے) ظالم اور نا حق عمل کرنے والے ہوں گے۔)
وَلْيَحْكُمْ اَهْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فِيْهِ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ۔ [المائدۃ: ۴۷]
(انجیل والوں کو چاہیے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس میں نازل فرمایا ہے، اس کے مطابق فیصلہ کریں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق (معصیت پیشہ اور نا فرمان) ہیں۔)
کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جہاں مسلمانوں کو مکمل اختیار حاصل نہیں، جہاں وہ مجبور ہیں، جہاں ان کے پاس قوتِ نافذہ نہیں جو عدالتوں کے احکام کو نافذ کرسکے، وہاں وہ کیسے اسلامی نظامِ قضا پر عمل در آمد کر سکتے ہیں! سوال بجا ہے، لیکن جہاں مکمل اختیارات حاصل ہیں، جو مسلم جمہور یائیں ہیں، ان کا حل کہیے؟ ہمارے یہاں اگر اسلامی نظامِ قضا کو تحفظ حاصل تھا تو پھر لوگوں کی تربیت اس طور پر کرنے میں کیوں کوتاہی کی گئی کہ وہ اپنے مقدمات و معاملات شریعت کی روشنی میں فیصل کراتے؟ چلیں چھوڑیں! وطن عزیز کے تناظر میں اگر ایک فریق شریعت کے مطابق فیصلے پر راضی نہیں ہے تو دوسرے کا ملکی عدالت میں جانا مجبوری ہے۔ خدا دل کا حال جانتا ہے اس کی صفت غفور و رحیم ہے، وہ اس کی مجبوری کو معاف فرما دے گا، لیکن ایسے دو فریقوں کا کیا ہوگا؟ جن کو حق و نا حق کی مکمل تمیز ہو، جو احکامِ شریعت سے بھی واقف ہوں، جو چاہیں تو بغیر قاضی و فیصل کے بغیر اپنے معاملات طے کر لیں ورنہ شریعت کے ماہر کی عدالت میں اپنا فیصلہ کرا لیں، جنھیں سچ اور جھوٹ، جائز و نا جائز، حق و نا حق، استحقاق و غصب، خبیث و طیب کی تمیز ہو، جنھیں تزکیہ و پارسائی اور رہنمائی کا بھی دعویٰ ہو وہ اگر شریعت کے قوانین اور قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ملکی عدالتوں کا رخ کریں تو پھر معاملہ بڑا خطرناک ہو جاتا ہے، میں جب جب قرآن مجید پڑھتا ہوں تو پورا وجود کانپ کر رہ جاتا ہے، ایک طرف قرآن اصل قانون ساز اللہ کو بتاتا ہے، دوسری طرف حقوق کو امانت قرار دیتے ہوئے ان کی ادائیگی کا واضح حکم دیتا ہے، پھر عدل کے ساتھ فیصلے کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ خدا کی طرف سے بہترین نصیحت ہے، پھر یہ بھی باور کرا دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ خوب سننے والا اور خوب دیکھنے والا ہے۔ پھر اگلی آیت میں یہ بھی واضح کر دیتا ہے کہ اگر آپس میں تنازعہ ہو جائے تو اللہ ، رسول اور اولو الامر سے رجوع کرو، اب جو لوگ قرآن و شریعت کا علم رکھتے ہیں، وہی دونوں فریق ہوں تو ان کے لیے کیا جواز رہ جاتا ہے کہ وہ شریعت کو چھوڑ کر کہیں اور اپنے معاملات طے کریں۔
اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِھَا وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّـٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا، يَآ اَيُّـھَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُـمْ فِىْ شَىْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّـٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُـمْ تُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِكَ خَيْـرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔ [النساء: ۵۸،۵۹]
(اللہ تعالیٰ تمھیں اس کا حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچا دو اور لوگوں کے درمیان جب بھی فیصلہ کرو توعدل و انصاف سے کرو، اللہ تم کو اس کی بہترین نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور پیغمبروں کی اور اپنے میں سے دین کے نمائندوں اور حکومت (اسلامی) کے ذمہ داروں کی اطاعت کرو، اگر کسی معاملہ میں تمھارے درمیان نزاع پیدا ہو تو اللہ و رسول کی طرف رجوع کرو (قرآن و سنت کو مرجع بناؤ) اگر تم اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہی (تمھارے لیے) بہتر ہے اور انجام اور نتائج کے اعتبار سے یہی اچھا ہے اور خوب تر ہے۔)
مفتی شفیع عثمانی صاحب ان آیات کے ضمن میں لکھتے ہیں:
’’اول آیت کے پہلے جملے کو ’’ان اللہ یأمرکم‘‘ سے شروع فرما کر اس طرف اشارہ کر دیا کہ اصل امر اور حکم اللہ تعالیٰ کا ہے، سلاطین دنیا سب اس کے مامور ہیں، اس سے ثابت ہوا کہ ملک میں اقتدار اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کا ہے۔…اولی الامر لغت میں ان لوگوں کو کہا جاتا ہے، جن کے ہاتھ میں کسی چیز کا نظام اور انتظام ہو، اسی لیے حضرت ابن عباسؓ ، مجاہد اور حسن بصری وغیرہ مفسرین قرآن نے اولی الامر کے مصداق علماء و فقہاء کو قرار دیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب ہیں اور نظامِ دین ان کے ہاتھ میں ہےاور ایک جماعت مفسرین نے جن میں حضرت ابو ہریرہؓ بھی شامل ہیں۔ فرمایا کہ اولی الامر سے مراد احکام اور امراء ہیں، جن کے ہاتھ میں نظامِ حکومت ہے۔ اور تفسیر ابن کثیر اور تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ لفظ دونوں طبقوں کو شامل ہے، یعنی علماء کو بھی اور حکام و امراء کو بھی کیوں کہ نظامِ امر ان ہی دونوں کے ساتھ وابسطہ ہے۔…اس آیت میں ظاہراً تین اطاعتوں کا حکم ہے، اللہ ، رسول، اولی الامر، لیکن قرآن کی دوسری آیات نے واضح فرما دیا کہ حکم و اطاعت در اصل صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ہے۔ ان الحکم الا للہ مگر اس کے حکم اور اس کی اطاعت کی عملی صورت چار حصوں میں منقسم ہے۔‘‘ [تفسیر معارف القرآن، پارہ ۵، ص ۱۰۰، ۱۰۱]
اس مضمون کو ہم اس سلسلے کی سب سے زیادہ جھنجھوڑ دینے والی آیت پر ختم کرتے ہیں جو اس سلسلۂ گفتگو میں فیصلہ کن اور پورے وجود کو ہلا دینے والی ہے۔ سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کا حال بیان فرمایا ہے کہ دعویٰ تو ایمان کا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم آپ پر اور آپ کے رسولوں پر جو نازل کیا گیا اس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن جب کوئی تنازعہ ہوتا ہے اور کوئی مقدمہ در پیش ہوتا ہے تو فیصلے کے لیے کفر کے ٹھیکیداروں اور طاغوتی نظام کی محافظ و علمبردار عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا [النساء : ۶۵]
’’اے محمدﷺ آپ کے رب کی قسم ایمان صحیح معنیٰ میں ان کے دلوں میں داخل نہیں ہو سکتا اور حقیقت میں وہ اس کی لذت بھی نہیں پا سکتے، جب تک یہ آپ کو حکم و قاضی نہ مان لیں اور اپنے اختلافات میں آپ کے فیصلے پر راضی نہ ہو جائیں۔ آپ ان کے درمیان شریعت کے مطابق فیصلہ کریں تو یہ آپ کے فیصلے پر سرِ تسلیم خم کر دیں، نہ دلوں میں کوئی تنگی محسوس کریں اور نہ کوئی نا گواری، بلکہ ہر حال میں یہ آپ کے فیصلے کے آگے سر جھکا دیں۔
آیت میں يُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کی ترکیب بڑی معنیٰ خیز ہے۔ گویا حکم شریعت پر رضا مندی کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ اوپر سے جو سلسلہ کلام چلا آ رہا ہے، ذرا اس کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے اور اس آیت پر غور کیجیے۔ خدا اور رسول کے فیصلے کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، قرآن کے بیانات بالکل صریح ہیں۔ ان میں کوئی لاگ لپیٹ ہے ہی نہیں۔ طاغوتی نظام اور طاغوتی عدالت کو فیصل بنانا نفاق کی علامت ہے اور قرآن و شریعت کو حکم بنانا ایمان کا تقاضا ہے۔ طاغوت کا انکار کیے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا، چناں چہ مجھے تعجب اس وقت ہوتا ہے جب قرآن و سنت اور شریعت کا علم رکھنے والے بھی اپنے باہمی تنازعات کا فیصلہ شریعت کے مطابق نہ کر کے ان عدالتوں میں لے جاتے ہیں جہاں خدا کی حاکمیت اور قرآن کی شریعت کی کوئی تصدیق نہیں۔ پھر آخر اس آیت کی رو سے وہ کس قبیل میں آئیں گے، جبکہ قرآن کا بیان اس قدر صاف اور واضح ہے کہ اے محمد آپ کے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے جھگڑوں میں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور آپ کے فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم نہ کر دیں۔ ‘‘ [آسان تفسیر قرآن، ۱۹۷]
حضرت تھانوی لکھتے ہیں:
’’پھر قسم ہے آپ کے رب کی یہ لوگ (جو صرف زبانی ایمان ظاہر کرتے پھرتے ہیں عند اللہ) ایمان دار نہ ہوں گے، جب تک یہ بات نہ ہو کہ ان کے آپس میں جو جھگڑا واقع ہو، اس میں یہ لوگ آپ سے (اور آپ نہ ہوں تو آپ کی شریعت سے) تصفیہ کروایں پھر (جب آپ تصفیہ کر دیں تو) اس آپ کے تصفیہ سے اپنے دلوں میں (انکار کی) تنگی نہ پاویں اور (اس فیصلہ کو ) پورا پورا (ظاہر سے، باطن سے) تسلیم کر لیں۔
ف: اگر یہ شبہ ہو کہ آپ تو حاکم ہی تھے پھر کسی کے حَکم بنانے کے کیا معنیٰ ۔ جواب یہ ہے کہ میں نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں اس کی گنجائش نہیں رہی کیوں کہ تحکیم اصطلاحی شرعی مراد نہیں، بلکہ تحکیم حسی یعنی مقدمہ لانا مراد ہے اور یہ امر ان ہی کے فعل پر موقوف ہے۔ اور اگر یہ شبہ ہو کہ ظاہر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دوسرے قانون کی طرف اس کو باطل سمجھ کر رجوع کرتے ہیں وہ مسلمان نہیں حالانکہ حرام کا مرتکب جب کہ اعتقاد حلت کا نہ رکھتا ہومومن ہے گو کہ فاسق ہو، اسی طرح اگر کسی کے دل میں شرعی فیصلہ سے تنگی پیدا ہو مگر اس فیصلہ کو حق سمجھے وہ بھی مسلمان نہ ہونا چاہیے، حالانکہ تنگی پر انسان کا اختیار نہیں اور غیر اختیاریات کا مکلف نہیں۔ اسی طرح اس فیصلہ پر کوئی عمل نہ کرے تو یہ بھی عدم تسلیم ہے تو وہ بھی مسلمان نہ رہے حالانکہ ترکِ عمل سے ایمان نہیں جاتا۔ان شبہات کا جواب یہ ہے کہ تحکیم اور عدم جرح اور تسلیم کے مراتب تین ہیں اعتقاد سے اور زبان سے اور عمل سے اعتقاد سے یہ کہ قانونِ شریعت کو حق اور موضوع للتحکیم جاننا ہے اور اس میں مرتبہ عقل میں ضیق نہیں اور اسی مرتبہ میں اس کو تسلیم کرتا ہے اور زبان سے یہ کہ ان امور کا اقرار کرتا ہےکہ حق اسی طرح ہے۔ اور عمل سے یہ کہ مقدمہ لے بھی جاتا ہے اور طبعی ضیق بھی نہیں اور اس فیصلہ کے موافق کارروائی بھی کر لی سو اول مرتبہ تصدیق و ایمان کا ہے اس کا نہ ہونا عند اللہ کفر ہے اور منافقین میں خود اس کی کمی تھی، چنانچہ تنگی کے ساتھ لفط انکار اسی کی توضیح کے لیے ظاہر کر دیا ہے اور دوسرا مرتبہ اقرار کا ہے اس کا نہ ہونا عند الناس کفر ہے۔ تیسرا مرتبہ تقویٰ و اصلاح کا ہے، اس کا نہ ہونا فسق ہے اور طبعی تنگی معاف ہے، پس آیت میں بقرینہ ذکر منافقین مرتبہ اولیٰ مراد ہے۔ اب کوئی اشکال نہیں۔‘‘ [بیان القرآن، حضرت تھانوی، ج ۱، ص ۳۶۹]
مفتی شفیع عثمانی صاحب اس کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں رسول کریم ﷺ کی عظمت اور علوّ مرتبت کے اظہار کے ساتھ آپﷺکی اطاعت جو بے شمار آیاتِ قرآنیہ سے ثابت ہے، اس کی واضح تشریح بیان فرمائی ہے، اس آیت میں قسم کھا کر حق تعالیٰ شانہ نے فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک مؤمن یا مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ آں حضرت ﷺکو ٹھنڈے دل سے ہوری طرح تسلیم نہ کر لے کہ اس کے دل میں بھی اس فیصلہ سے کوئی تنگی نہ پائی جائے۔
حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس ارشادِ قرآنی پر عمل آنحضرت ﷺ کے عہدِ مبارک کے ساتھ مخصوص نہیں۔ آپ ﷺکے بعد آپﷺکی شریعت مطہرہ کا فیصلہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فیصلہ ہے، اس لیے یہ حکم قیامت تک اس طرح جاری ہے کہ آپﷺکے زمانۂ مبارک میں خود بلا واسطہ آپ سے رجوع کیا جائے اور آپﷺکی شریعت کی طرف رجوع کیا جائے جو در حقیقت آپﷺکی طرف رجوع ہے۔
گذشتہ تفصیل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول کریمﷺامت کے صرف مصلح اور اخلاقی رہبر ہی نہیں تھے، بلکہ وہ ایک عادل حاکم بھی تھے، پھر حاکم بھی اس شان کے کہ آپﷺکے فیصلے کو ایمان و کفر کا معیار قرار دیا گیا، جیسا کہ بِشر منافق کے واقعہ سے ظاہر ہے، اس چیز کی وضاحت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب میں متعدد مقامات پر اپنی اطاعت کی تعلیم کے ساتھ ساتھ رسول کریمﷺکی اطاعت کو بھی لازمی قرار دیا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ’’یعنی تم اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسول کی اطاعت کرو۔‘‘ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ یعنی جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے در حقیقت اللہ کی اطاعت کی۔
ان آیات میں غور کرنے سے آپ کی شانِ حاکمیت بھی نکھر کر سامنے آ جاتی ہے، جس کی عملی صورت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے پاس اپنا قانون بھیجا، تاکہ آپ مقدمات کے فیصلے اسی کے مطابق کر سکیں، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَا اَرَاکَ اللّٰہُ، یعنی ہم نے آپ پر کتاب کو حق کے ساتھ نازل کیا، تاکہ آپ لوگوں کے درمیان میں اس طرح فیصلہ کریں جس طرح اللہ آپ کو دکھلائے اور سمجھائے۔‘‘ [معارف القرآن ، ص ۱۱۱ تا ۱۱۴]
ان تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یہ معاملہ کوئی سرسری معاملہ نہیں ہے، بلکہ بہت حساس ہے، اس پر ہمیں پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس طرح ہم دیگر احکام بیان کرتے ہیں، عبادتوں کے فضائل بیان کرتے ہیں، اسی طرح اس مسئلہ کو بیان کرنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور جنھیں معاشرے میں دین دار سمجھا جاتا ہے ان کی ذمہ داری مزید یہ بھی ہے کہ اپنے آپسی تنازعات کو اسلامی دار القضاء میں نمٹائیں اور عملی نمونہ پیش کریں اور اس طرح لوگوں کو شریعت کی روشنی میں معاملات حل کرنے پر آمادہ کریں۔ و اللہ ولی التوفیق۔