موسم سرما کی دستک

محمدشبیرانور قاسمی/  نائب قاضی شریعت و استاذ   مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے

     ریاست بہار سے مانسون رخصت ہوچکاہے، سردی کی آمد آمد ہے، موسم اب سبک پائی کے ساتھ اپنا رنگ اور مزاج بدل رہا ہے، اب اس وقت صبح و شام سردی محسوس ہونے لگی ہے، سورج ڈھلنے کے بعد جیسے جیسے رات بھیگتی ہے، درجہ حرارت گرتا جاتاہے، صبح کے وقت ہلکی دھند بھی چھانے لگی ہے، شب میں پنکھے کی یاری کھلنے لگی ہے، جو چند روز قبل تک تن من کے سکون کا باعث تھے، رات گئے تو چادر اور ہلکے کمبلوں کی حاجت بھی ستانے لگی ہے، محکمہ موسمیات پٹنہ کی تازہ اطلاعات کے مطابق گزشتہ 24گھنٹوں کے اندر بہار کے 24اضلاع میں درجہ حرارت میں کمی درج کی گئی ہے اور آنے والے دنوں میں درجہ حرارت میں مزید کمی دیکھنے کو ملے گی اور لوگ سردی محسوس کریں گے۔

     اس سے معلوم ہوا کہ دنیا کی فطرت تغیر و تبدل سے عبارت ہے، تغیر و تبدل جمود کے منافی اور ضد ہے، جمود میں برکت اور ترقی نہیں، شاید اسی لئے یہ فقرہ مشہور ہے کہ حرکت میں برکت ہے۔ اور تنوع میں دنیا کا حسن ہے، موسم کی تبدیلی میں بھی حسن ہے، ہر برس چار موسم آتے ہیں؛ گرمی، سردی، بہار اور خزاں، ہر کوئی ان موسموں کی قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتا ہے، موسموں کی تبدیلی سے مقصد خداوندی اپنے بندوں خصوصا مومنوں کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے، جنھیں غنیمت جان کر، ان سے مستفید ہوکر ایک مومن اپنی دنیا و آخرت سنوار سکے۔

     موسموں کا سامنا کرنے کے لئے لوگ دنیوی اور مادی لحاظ سے تیاری کرتے ہیں، جیسا موسم آنے والا ہوتا ہے، اس کے تقاضوں کے مطابق لوگ اپنی پوشاک، غذا اور معمولات میں تبدیلی لاتے ہیں، موسم باراں کے آنے پر بارش سے بچاؤ کے اپائے کئے جاتے ہیں، موسم گرما آنے سے قبل اس کے موافق لباس تیار کئے جاتے ہیں، رہائش گاہوں کو ٹھنڈا رکھنے کے آلات چست درست کئے جاتے ہیں، اسی طرح جب سردی شروع ہوتی ہے، تو لوگ سردی سے بچنے کے انتظامات کرتے ہیں، گرم لباس اور گرم بستروں کی تیاری زور شور سے ہوتی ہے، غرض یہ کہ سردی کی آمد کے ساتھ لوگ خود کو موسم کے موافق ڈھالنے کی تیاری کرتے ہیں۔اسی طرح نبی رحمت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں سرزمین پر نئے بدلتے موسم میں اہل ایمان کو اپنے دینی و اخروی فوائد کے پہلو تلاش کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

     رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:”سردی کا موسم اہل ایمان کے لیے موسم بہار ہے، اس کے دن چھوٹے ہوتے ہیں، جن میں وہ روزے رکھ لیتا ہے، اور اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں، جن میں وہ قیام (تہجد ادا) کرلیتا ہے۔“ (بیہقی کبری) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے: ”سردیوں کے روزے رکھنا مفت اجر کمانا ہے۔“ (طبرانی صغری) اور خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ”سردی کا موسم عبادت کرنے والوں کے لئے نیکیوں کے لوٹنے کا موسم ہے۔“ ان احادیث و روایات سے معلوم ہوا کہ دینی اعتبار سے موسم سرما کی اپنی اہمیت ہے, اخروی زاد راہ جمع کرنے کے لحاظ سے موسم سرما مومنوں کے لئے موسم بہار ہے۔

     ہم جانتے ہیں کہ موسم بہار میں ماحول خوشگوار اور فضا معتدل اور سازگار ہوتی ہے، پیڑ پودوں پر من موہن رونق چھائی ہوتی ہے، کھیت میں فصلوں کی سبز چادریں بچھی ہوتی ہیں، ہرسو رنگ برنگے پھول کھلے ہوتے ہیں، پرند ے نغمے گاتے اور تتلی اور بھنورے ناچ رہے ہوتے ہیں اور کائنات کا حسن اپنے شباب پر ہوتا ہے، اسی طرح سردی کا موسم ایک مومن بندہ کے لیے نیک اعمال خصوصا روزے اور تہجد بہار سے کم نہیں، اہل ایمان چاہیں تو روزے اور تہجد جیسی عبادات سے اپنے گلشن عمل کو معطر کرسکتے ہیں، نیکیوں کی بہار سے قلب و روح کے چمن کو پربہار اور خوشگوار بنا سکتے ہیں۔

     موسم سرما نیکیوں کے لوٹنے کا موسم بہار ہے، غربا, مساکین, حاجت مندوں کی ضروریات پوری کرکے, سردی سے کپکپاتے افراد کو گرم کپڑے, سوئٹر, شال اور کمبل مہیا کرکے, البتہ سردی کے حوالے سے دو عبادات؛ روزہ اور تہجد کابطور خاص اوپر ذکر آیا، جو شخصی اعمال سے جڑے ہیں,اور ان دونوں عبادات کی فضیلت، اہمیت اور افادیت اہل ایمان سے پوشیدہ نہیں ہے، حدیث قدسی میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اللہ تعالی فرماتا ہے کہ انسان کے تمام اعمال اس کی اپنی ذات کے لئے ہیں سوائے روزے کے جو میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔” اس کے علاوہ رب کائنات نے روزے کو جہنم سے ڈھال اور جنت کا راستہ بتایا اور روزے دار کے دعا کی قبولیت کا وعدہ ہے۔ تو نیکیوں کا طالب مومن موسم سرما میں روزہ کے بے شمار فضائل کو بہ آسانی حاصل کرسکتا ہے، کیوں کہ سردی کے موسم میں دن چھوٹا اور سرد ہوتا ہے، اس کی وجہ سے روزہ دار کو بھوک اور پیاس کا احساس نہیں ہوتا اور آسانی سے روزہ مکمل ہوجاتا ہے، اسی پہلو کی جانب توجہ دلاتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”سردی کی غنیمت یہ ہے کہ اس موسم میں روزہ رکھا جائے۔“ (ترمذی) جس طرح بغیر جنگ لڑے مال ملنے پر بہت خوشی اور ایسے اموال کے حصول کی رغبت ہوتی ہے، اسی طرح موسم سرما کے روزے بغیر تعب اور مشقت کے رکھے جاسکتے ہیں اور یہ اس مال غنیمت کی مانند ہے جو بغیر جنگ کے ہاتھ آئے۔

     دوسری عبادت جس کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی توجہ دلائی ہے، وہ ہے نماز تہجد، تہجد کو قیام اللیل بھی کہا جاتا ہے، اس کی فضیلت قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے آئی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمھیں بطور خاص تہجد ادا کرنا چاہئے، کیوں کہ یہ تم سے پہلے صالحین کا طریقہ اور عادت تھی، یہ تمھارے لئے رب سے تقرب کا ذریعہ ہے، تمھاری برائیوں کو مٹانے والا اور گناہوں سے بچانے والا عمل ہے۔ (ترمذی) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں جن کے اندر سے باہر کا اور باہر سے اندر کا نظارہ ہوتا ہے، یہ کمرے اللہ نے ان بندوں کے لئے تیار فرمائے ہیں، جو نرم لہجہ میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے ہیں، جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔“ (ترمذی) امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ تہجد کے وقت کی دعا وہ تیر ہے جس کا نشانہ خطا ہی نہیں ہوتا۔

     ہمارے بڑے بزرگ اس خاص عبادت کا بڑا اہتمام کرتے تھے اور اپنے رب سے راز و نیاز میں ہمہ تن گوش منہمک رہتے, یہاں تک کہ صبح صادق ہوجاتی؛ لیکن آج کل ہم نوجوانوں میں اس کے تئیں بڑی غفلت اور کوتاہی ہے، بلکہ نماز پنج گانہ کی پابندی سے بھی آزاد ہیں، تو سنن و نوافل کے اہتمام کا کیا پوچھنا؟ یہ صورت حال ہماری حرماں نصیبی کے سوا اور کچھ نہیں، کیوں کہ بے آہ سحرگاہی کچھ ہاتھ نہیں آتا۔علامہ اقبال کی زبان میں کہہ لیجئے:

عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا، بے آہ سحر گاہی

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔