جاوید اختر بھارتی
( رکن مجلس شوریٰ مدرسہ فیض العلوم)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
__________________
یوں تو دنیا میں سب کو دولت کمانے کی خواہش ہوتی ہے مگر انہیں میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دولت کی قدر کرتے ہیں ، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دولت حاصل ہونے کے بعد مغرور ہوجاتے ہیں ، کچھ ایسے ہوتے ہیں جو دولت کو بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرتے ہیں تو کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باپ کی کمائی ہوئی دولت کو پانی کی طرح بہاتے ہیں اور خوب اڑاتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کو وقت رہتے سمجھ نہیں آتی ہے تو ایک دن ٹھوکر لگتی ہے اور انجام بہت برا ہوتا ہے ،، اس لئے پاس میں دولت ہوتو کبھی یہ نہ تصور کریں کہ ہمیشہ دولت رہے گی ، ہمیشہ پیسوں کی فراوانی رہے گی دنیا میں بڑے بڑے دولت مند لکیر کے فقیر ہوگئے ہیں وقت بدلتے دیر نہیں لگتی اس لئے ضروری ہے کہ ہر دولت مند باپ خود پھونک پھونک کر قدم اٹھائے اور اپنے بیٹوں کو نصیحت کرے کہ پیسوں کی قدر کرو اتراؤ نہیں ، اکڑو نہیں ، بڑے باپ کی بگڑی اولاد کا رول ادا نہ کرو ، اپنی دولت کے نشے میں کسی غریب کا دل نہ دکھاؤ ، کسی غریب کے سامنے شیخی نہ بگھاڑو، اپنی دولت کا تذکرہ نہ کرو ، کسی بوسیدہ کپڑا پہنے ہوئے شخص کے سامنے اپنے کپڑوں کی تعریف نہ کرو ، کمزوروں کے سامنے اپنی طاقت کا اظہار نہ کرو ، بیماروں کے سامنے اپنی صحت و تندرستی پر خوشی کا اظہار نہ کرو ، بے اولاد کے سامنے اپنی اولاد کی گنتی نہ کرو بلکہ ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کا جذبہ پیدا کرو اس سے عوامی مقبولیت حاسل ہوگی اور عوامی اعتماد بھی حاصل ہوگا اور عوامی مقبولیت و اعتماد حاصل ہونے کی صورت میں بہت سی راہیں آسان ہوجاتی ہیں اور بہت سے مقاصد پایۂ تکمیل تک پہنچ جاتے ہیں مگر ہاں یہ تو ماننا پڑے گا کہ امتحان دونوں صورتوں میں ہے غریبی میں بھی اور دولت کی فراوانی میں بھی اب ایسی صورت میں ہمت ہار جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور قدم بہک جانے کا بھی خطرہ ہوتا ہے اور اکثر قدم بہک ہی جاتاہے اور مزاج تبدیل ہی ہوجاتا ہے اسی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ پیسے میں بڑی طاقت ہے اور بڑی عزت ہے اس کا ثبوت دیواروں پر چسپاں اشتہار میں ملتا ہے ، دینی، سیاسی، سماجی تقریبات میں ملتا ہے یہاں تک کہ شادی بیاہ میں بھی ملتاہے ،، پہلے ایک کہاوت اور محاورہ مشہور تھا کہ جو اندھیرا دیکھ کر اجالا دیکھتا ہے اس کا مزاج اور نظریہ تبدیل نہیں ہوتا یعنی جس نے غریبی جھیل کر امیری دیکھی ہے اس کو پرانے دن یاد رہتے ہیں لیکن اب ایسا نہیں ہے چاہے اندھیرے کی پیداوار ہو یا اجالے کی پیداوار ہو سب ایک ہی راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں ہاں دال میں نمک کے برابر ایسے بھی ہیں جن کے اندر انسانیت ہوتی ہے اور ہمدردی ہوتی ہے جو اپنی قوم اپنے سماج اپنے عزیز واقارب پر توجہ دیتے ہیں اور اپنی اولاد کو بھی اچھی تربیت دیتے ہیں اور یہی چیز ضروری ہے کیونکہ ایک اچھا انسان بننا بہت ضروری ہے اور یہ بہت بڑی بات ہے یاد رکھیں کہ جو ایک اچھا انسان نہیں بن سکتا وہ اچھا مسلمان بھی نہیں بن سکتا-
کوئی کہتا ہے کہ پیسے کے معنی کچھ نہیں، تو کوئی کہتا ہے کہ پیسہ ہے تو سب کچھ ہے گویا پیسے میں بڑی طاقت ہے ہرجگہ پیسہ بولتا ہے ، بھائی سے بھائی کو لڑواتا ہے ، رشتے میں دراڑیں پیدا کراتا ہے ، انصاف کا گلا دبانے کی کوشش کرتا ہے ، بھرے بازاروں میں چلتا ہے ، دنیا کے کاروباروں میں چلتا ہے ، موٹر کاروں میں پھرتا ہے ، طیاروں میں یہ اڑتا ہے اور اس کے اثرات وقتاً فوقتا ظاہر بھی ہوتے رہتے ہیں کبھی راحت بخش کی شکل میں تو کبھی پریشان کن شکل میں ، کبھی حوصلہ افزائی کی شکل میں تو کبھی حوصلہ توڑنے کی شکل میں ، کبھی امداد و اعانت کی شکل میں تو کبھی غریبوں کمزوروں کی اہانت کی شکل میں ،، بہر حال آج کا معاشرہ اور ماحول ایسا ہی ہے کہ جس کے پاس دولت ہے اسی کا حوصلہ بلند ہے اس لئے کہ ترقی کا ہر تار آج پیسے سے ہی جڑا ہے ،، وہ تو انسان کی مجبوری در مجبوری اور در مجبوری ہے کہ مرنے کے بعد ساری حرکت بند ، ساری چوکڑی فیل ہوجاتی ہے حتیٰ کہ خود اپنا کفن بھی اپنے ہاتھوں سے نہیں پہن سکتا ورنہ یہ آج کا انسان کفن میں بھی بڑی بڑی جیب لگواتا اور ساری دولت جیب میں رکھ کر لے جاتا ،، حالانکہ زندگی میں بہت سے ایسے مراحل پیش آتے ہیں جہاں انسان کو احساس کرنے کا اور سنبھلنے کا موقع ملتا ہے مگر واہ رے خود غرض اور مفاد پرست انسان تو حرص و ہوس کے سمندر میں ایسا غرقاب ہوا ہے کہ ذرہ برابر تجھے خوف خدا نہیں تو حج وعمرہ کے پیسوں کو بھی لے کر بھاگنے اور فرار ہونے لگا اس وقت بھی تجھے احساس نہیں ہوتا کہ نہ تو احرام میں جیب ہوتی ہے اور نہ ہی کفن میں جیب ہوتی ہے ،، ایک باپ اپنے بیٹے کو نصیحت کر تا ہے تو اس وقت جب خود اس کے قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں یہ بھی سوچنے کا مقام ہے کہ ایک بیٹا ہوش سنبھالنے کے بعد سے چالیس سال تک اپنے باپ کو پیسوں کے نشے میں جھومتا ہوا دیکھے گا سکوں کی جھنکار میں مست مگن دیکھے گا ، غریبوں اور مزدوروں سے دوری بناتے اور سب کے سامنے اتراتے ہوئے دیکھے گا تو اس باپ کی نصیحت بیٹے پر کتنی اثر انداز ہو گی خود ہر شخص اس کا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہر وہ کام وقت رہتے کیا جائے تاکہ کارآمد ثابت ہو ،، عبادت بھی اسی حال میں کیا جائے کہ قیام و رکوع و سجود اور قعدہ اولیٰ و اخیرہ کی چاشنی اور ذائقہ محسوس ہو اور عبادت کا مزا بھی آئے ورنہ کیا بھروسہ کل کو بغیر قیام و رکوع و سجود کے نماز جیسی افضل عبادت کرنا پڑے راقم الحروف کا دعویٰ ہے کہ ایک صحت مند نمازی اور ایک بیمار نمازی جو رکوع و سجود اور قیام نہیں کرسکتا دونوں کو اکٹھا کرکے دونوں سے عبادت کا مزا پوچھا جائے تو بیمار شخص کا دل روئے گا اور آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے گا شائد وہ اپنے آپ کو گرنے سے سنبھال بھی نہ سکے ،، اسی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ تندرستی ہزار نعمت ہے صرف ڈھابوں پر جاکر اور دنیا کے مہنگے مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرنے اور کھانے پینے کی بنیاد پر تندرستی کو ہزار نعمت نہیں کہا گیا ہے مگر افسوس کی بات ہے آج عالمی سطح پر طرح طرح کے لوازمات اور کھانے پینے پر بے پناہ توجہ دینا مسلمانوں کی پہچان بنتی جارہی ہے ،، آج مسلمانوں کے پاس دولت ہے مگر اس دولت کا استعمال جہاں کرنا چاہئے وہاں نہیں کیا جاتا ہے جبکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پیسوں کا استعمال کرکے ملک کے سبھی مدارس اسلامیہ کو دینی تعلیم کے ساتھ اسے ہائی اسکول تک کیا جائے اور اسی طرح نسواں مدارس اسلامیہ کو بھی کیا جائے پھر بہت جلد ایسے حالات دیکھنے کو ملیں گے کہ اسکول و کالجز اور یونیورسٹیز کی تعمیر کا جذبہ پیدا ہوگا پھر مسلمان تعلیم یافتہ ہوگا جب دینی و عصری دونوں تعلیم ہوگی تو دینی و دنیوی دونوں راہیں آسان ہوں گی ، کامیابیاں بڑھ بڑھ کر قدم چومیں گی پھر عدالت میں ایڈوکیٹ ، اسپتال میں ڈاکٹر اور نرس مسلمان نظر آئیں گے –