۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

طلب ، سکون اور انسان

طلب ، سکون اور انسان

محمد عمر فراہی

طلب بہت ہی چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اپنے مفہوم کے لحاظ سے بہت ہی وسعت کا حامل ہے ۔دیکھا جاۓ تو انسانی دنیا کا پورا کاروبار اسی طلب اور مفاد پر ہی منحصر ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ سب کی اپنی طلب کا ذائقہ اور معیار اور اس کے حصول کا طریقہ اور مفاد مختلف ہے ۔طلب اور مفاد حلال بھی ہے اور حرام بھی ہے ۔مثال کے طور پر دولت ،جائیداد اور شہرت کی طلب حرام نہیں ہے لیکن یہ بات آدمی کی نیت استعمال اور طریقہ کار پر منحصر ہے ۔ان سے سکون بھی ملتا ہے اور کبھی کبھی انسان لالچ اور حرص میں اتنا کچھ حاصل کر لیتا ہے کہ یہ دولت ، شہرت اور ملکیت اس کے لئے وبال جان بھی بن جاتی ہے اور اس کی حرص میں ناجائز طریقہ بھی اختیار کرتا ہے ۔طریقہ جائز بھی ہو تو بھی اگر لالچ غالب آجاۓ تو اس دولت کی وجہ سے اس کی نیند بھی  اڑ جاتی ہے ۔وہ اتنا مصروف ہوجاتا ہے کہ اس کے لئے لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا ہنسنا بولنا دل بہلانا محال ہو جاتا ہے ۔وہ ہر کسی سے کہیں پر کسی وقت اپنا غم ہلکا نہیں کر سکتا ۔کبھی کبھی اسے بہت زیادہ نگہبانی میں زندگی گزارنی پڑتی ہے اور دیکھا گیا ہے کہ اکثر شہرت یافتہ شخصیات اپنی کار اور بنگلے اور کاروبار میں چند شخصیات کے درمیان قید ہو کر خود کو تنہا کر لیتے ہیں ۔اسی تنہائی کو دور کرنے کیلئے اکثر لوگ شہروں سے دور کشمیر اور کنیا کماری تفریح کیلئے جاتے ہیں یا شہروں میں جتنے بھی رقص و سرور اور شباب سے آراستہ بئیر بار اور مہنگے ہوٹل ہیں وہ ان امیر کبیر اور شہرت یافتہ لوگوں سے ہی اربوں روپئے کی تجارت کر رہے ہیں ۔

اکثر لوگ نشہ کے بھی عادی ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح  وہ کچھ دیر کیلئے اپنے دکھ درد اور غم کو بھلا کر راحت محسوس کرتے ہیں ۔اس طرح کوئی شراب پیتا ہے اور تھوڑی دیر کیلئے بےہوش ہوکر شتر مرگ کی طرح ریت میں یوں منھ  چھپا لیتا ہے کہ وہ مصیبت سے آزاد ہو گیا جبکہ ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ کچھ لوگ جو تھوڑا مہذب ہوتے ہیں انہیں اپنے ذہنی توازن کیلئے سگریٹ ، چاۓ اور  کافی کی طلب ہوتی ہے ۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ وہ چاہے کسی چیز کا نشہ ہو یا طلب اگر یہ حد سے تجاؤز کر جاۓ تو یہ نشہ خود انسانوں کو پینا شروع کر دیتا ہے  ۔دوسرے لفظوں میں کہا جاۓ تو غلط نہ ہوگا کہ پینا یا نشہ کرنا تو ایک بہانا ہے کچھ لوگ جنھیں کسی چیز کی طلب نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ نشہ کرتے ہیں مگر وہ جب کسی پریشانی یا مسئلے میں الجھے ہوتے ہیں تو انہیں ان کی خاموشی اور صبر ہی پینے لگتی ہے ۔حد سے زیادہ خاموشی اور صبر بھی اچھی چیز نہیں ہے ۔ جن کے پاس پریشانی کے وقت اپنی بات کہنے کیلئے کوئی دوست اور رازدار نہیں ہوتا وہ خود کو ہی پیتے اور جلاتے رہتے ہیں اور ان کا یہ پینا انہیں ایک ایسی سوچ میں مبتلا کر دیتا ہے جو بذات خود بھی ایک بیماری ہے ۔زندگی میں جس کو سوچ اور فکر کی بیماری لاحق ہو گئی دنیا میں اس سے خطرناک کوئی بیماری یا نشہ ہے ہی نہیں ۔ایسا انسان رفتہ رفتہ خود کو پینا شروع کردیتا ہے اور اس طرح اس کی زندگی یا تو  مختصر ہوجاتی ہے یا وہ زندگی ہار جاتا ہے  ۔آج لوگوں کی زندگیوں کے مختصر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان نے اپنی طلب کو بڑھا کر خود کو بہت سے مسائل میں الجھا لیا ہے اور اس کا ایک بہت بڑا وقت سوچنے میں گزر جاتا ہے۔ 

اب میں کسی سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ زیادہ خاموش نہ رہیں صبر نہ کریں اور سوچیں نہ ورنہ بیمار پڑ جائیں گے ۔سوچ کے سیلاب پر آج تک کوئی لقمان حکیم بھی باندھ نہیں باندھ سکا ہے ۔اس کا ایک ہی علاج ہے اور وہ ہے نیند لیکن پھر سوال اٹھتا ہے کہ سوچنے والے کو نیند ہی کہاں آتی ہے ۔ میڈیکل سائنس میں نیند کی گولیاں ت آتی ہیں اور وقتی نیند آ بھی جاتی ہے لیکن آدمی ہمیشہ اس کا عادی ہو جاتا ہے اور خود ڈاکٹر بھی یہ دوا اسی کو تجویز کرتا ہے جسے بہت زیادہ سوچنے کی بیماری ہو اور اسی سوچنے کی وجہ سے خون کے دوران کے بڑھ جانے کے سبب لوگوں میں فالج یا برین ہیمریج کے خدشات لاحق ہو جاتے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ میڈیکل سائنس کے پاس بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے لیکن میڈیکل سائنس بھی صرف سرجری میں کامیاب ہے باقی ایلوپیتھی دوائیں ایک مرض سے کسی مریض کو راحت پہنچاتی بھی ہیں تو جسم کے دوسرے اعضاء کو نقصان بھی پہنچاتی ہیں  ۔ہاں ایسے مریضوں کا ماہر نفسیات سے علاج ضرور کروایا جاتا ہے جو ایسے مریضوں کا علاج باتوں کے ذریعے ہی کرتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب باتوں سے علاجِ کیلئے ہزاروں روپئے خرچ کرنا ہے تو اللہ کے کلام سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے ۔آدمی کو سکون حاصل کرنا ہے تو قرآن کو ترجمے کے ساتھ سمجھ کر پڑھے ۔اس طرح رفتہ رفت اس کی طلب اور دلچسپی اس دنیا سے ہٹ کر ایک دوسری خوبصورت اور حقیقی دنیا کی طرف بڑھے گی اور پھر اس دنیا کی طلب میں وہ خیر خیرات اور نیک کام کی طرف بڑھے گا ۔یہ بات ماضی اور حال کے تجربات سے بھی ثابت ہے کہ خیر خیرات اور نیک کام کرنے والے ہی سکون میں رہتے ہیں باقی چوروں ، بدمعاشوں اور مفاد پرستوں کو کبھی سکون نہیں ملتا ۔قرآن اسی لئے کہتا ہے کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے ۔یہ ذکر قرآن کے علاوہ تو کوئی چیز نہیں ہے ۔لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے ترک کر کے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو خراب کر لیا ہے ۔پہلے کے لوگوں کی مثال لے لیں ہم سے زیادہ اگر وہ سکون سے تھے یا مطمئن تھے اور انہیں اتنی زیادہ سوچنے کی بیماری لاحق نہیں تھی تو اس لئے کہ وہ ہم سے زیادہ مذہب اور کتاب پر عمل کرنے والے تھے جبکہ ہم اپنے سکون اور راحت کا حل انسانی فلسفے میں ڈھونڈھ رہے ہیں ۔علامہ نے ان پہلے والوں کیلئے ہی جہاں یہ بات کہی کہ 

وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہو کر

اور ہم خوار ہوۓ تارک قرآں ہو کر 

آج کے سائینس پرست انسانوں پر تنقید بھی کی ہے کہ 

رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی 

فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی نہ رہی

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: