مولانا سید شاہ تقی الدین ندوی فردوسیؒ کی آپ بیتی
✍️ مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
___________________
ہندوستان میں جن بزرگوں کی طرف میرا دل کھینچتا ہے اور ان کی محبت بھی مجھے حاصل ہے ان میں ایک بڑا نام علم وفضل، تقویٰ طہارت، صلاحیت وصالحیت اور خدمات کے اعتبار سے حضرت مولانا سید شاہ تقی الدین ندوی فردوسی حفظہ اللہ (ولادت جولائی 1942ء) بن سید شاہ عنایت اللہ فردوسی (م 1/ دسمبر 1991ء) بن سید شاہ فضل حسین منیری (م 1924ء) بن سید شاہ امجد حسین (م 1921ء) کا ہے، وہ پیرانہ سالی کے باوجود پٹنہ میں نظام الاوقات کی پابندی کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں اور عمر کی اس منزل میں بھی لکھنے، پڑھنے کا کام کرتے ہیں، عزیزوں کی خاطر داری کے لیے اس کام کو بھی قبول کر لیتے ہیں، جو بڑی محنت کا ہوتا ہے، وقت طلب ہوتا ہے، مثال کے طور پر میری کتاب ”نئے مسائل کے شرعی احکام“ کا عربی ایڈیشن ”المسائل المستجدۃ فی ضوء الاحکام الشرعیہ“ لانا تھا، تو ڈرتے ڈرتے میں نے حضرت سے اس کتاب کے مواد اور زبان وبیان دونوں پر نظر نہائی کی درخواست کی، میں جانتا تھا کہ یہ کام کس قدر مشکل ہے، آج کے دور میں جب معاصرین بھی کتابیں پڑھنا پسند نہیں کرتے، حضرت نے بڑی خوش دلی سے اس کام کو اپنے ذمہ لے لیا اور انتہائی ژرف نگاہی کے ساتھ زبان وبیان کے اعتبار سے اس پر نظر نہائی کا کام انجام دیا، روزانہ اس کتاب کے لیے دو گھنٹے مختص کئے اور چند دنوں میں اس لائق بنا دیا کہ وہ چھپ کر منظر عام پر آجائے، چھپ کر آئی تو بھی بڑے اونچے حوصلہ افزائی کے کلمات کہے، چونکہ حضرت کا اپنا مقالہ بھی عربی زبان میں ”القضایا المعاصرۃ فی فتاویٰ علماء مسلمی الشرق الاوسط“ کے عنوان سے سات سو صفحات پر مشتمل تھا، جس پر انہیں ڈاکٹریٹ (Ph.D)کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔ اس لیے مواد کے اعتبار سے بھی انہوں نے اس کتاب کو جانچا، پرکھا اور اطمینان کا اظہار کیا، اتنا ہی نہیں اس کتاب پر ایک قیمتی مقدمہ لکھ کر کتاب کی اہمیت کو دو بالا کیا، یہ حضرت کی خورد نوازی کی ایک مثال ہے۔
ہم جیسے چھوٹوں کی کیا بات ہے؟ وقت کے بڑے بڑے علماء کی نگاہ میں ان کی بڑی وقعت رہی ہے، ان کی ذہانت وفطانت، دینی ذوق وشوق اور اصابت رائے کی وجہ سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ جیسے یگانہئ روزگار انہیں عزیز تر رکھتے تھے، مرشد امت حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندو ی ؒ اور مولانا سعید الرحمن اعظمی حفظہ اللہ کی شفقت بھی انہیں حاصل رہی ہے۔ طلب علم کے لئے جامعہ ازہر شریف جامعہ القاہرہ، جامعہ عین شمس جہاں کہیں تشریف لے گیے، اپنے علمی انہماک، وقت کی پابندی حسن اخلاق کی وجہ سے اساتذہ اور ساتھیوں کے منظور نظر اور محبوب بن کر رہے، زندگی کا بیش تر حصہ حضرت کا مصر اور سعودی عرب میں درس وتدیس میں گذرا، سبکدوشی کے بعد وطن کی محبت انہیں ہندوستان کھینچ لائی اور ان دنوں وہ سبزی باغ میں اپنے مکان میں فروکش ہیں اور علمی کاموں میں منہمک رہتے ہیں۔
آپ کی تحقیق کا اصل میدان فقہ ومسائل شرعیہ ہیں، عربی زبان وادب پر مہارت کے قائل ان کے عرب معاصرین بھی ہیں، ان کی عربی میں دو کتاب ندوۃ العلماء سے بھی شائع ہو چکی ہے۔
حضرت نے آپ بیتی لکھنے کا کام بظاہر مولانا نذر الحفیظ ندویؒ کے تقاضہ پر شروع کیا تھا، میری بھی دلی خواہش تھی کہ حضرت اپنی زندگی کے احوال خود اپنے قلم سے لکھ ڈالیں، تاکہ ایک پورے دور اور شخصیات کی تاریخ محفوظ ہو جائے اور بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو، مجھے یاد نہیں کہ میں ان سے اس خواہش کا اظہار کر سکا یا نہیں، مگر بزرگوں کے پاس علم کا ایک ذریعہ کشف بھی ہوا کرتا ہے، خیال چاہے جیسے پیدا ہوا ہو، مولانا نذر الحفیظ صاحب کی رائے کی تائید میری جانب سے بھی ہو گئی، چنانچہ حضرت نے اپنی آپ بیتی اپنے قلم سے ”حیاتی“ کے نام سے لکھ ڈالا، نام عربی میں ہے، زبان اردو ہے، اس نام ہی سے تواضع وانکساری کی بُو آتی ہے، کوئی بلند بانگ دعویٰ نہیں، صرف ”میری زندگی“ کا عنوان لگا دیا گیا ہے، اورملک، بیرون ملک، خصوصاً مصر، سعودی عرب اور ہندوستان کے پورے ایک عہد کی تاریخ، ادارے اور شخصیات کے حوالہ سے اس کتاب میں درج ہوکر محفوظ ہو گئی، خانقاہ منیر شریف اور اس کی عظیم شخصیات کے احوال وکوائف سے بھی اس کتا ب کے ذریعہ ہم واقف ہوئے ہیں، حضرت نے اس آپ بیتی میں قارئین کے لیے ”علم سینہ“ کو ”علم سفینہ“ بنا دیا ہے، اگر یہ کام نہ ہوتا تو ہم حضرت کی زندگی کے در وبست، نشیب وفراز اور اس عہد کی نامور شخصیات اور کارناموں سے واقف نہیں ہو پاتے۔
سوانح نگاری اور آپ بیتی ایک فن ہے اور کہنا چاہیے کہ اسلامی فن ہے، قرآن کریم میں انبیاء کا تذکرہ دونوں انداز میں کیا گیا ہے، کہیں ”اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰہِ اٰتٰانِیَ الْکِتَابَ“ کہہ کر نبی نے اپنی حیثیت اور مقام کا ذکر کیا، کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلان کرنے کو کہا گیا کہ ”اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعاً“ اور کہیں اسے سوانحی انداز میں بیان کیا گیا اور اسے غوروفکر، عبرت وموعظت کا سامان قرار دیا گیا، ”فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ“ اور ”فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌ لِاُولِی الْاَلْبَابِ“ کہہ کر سوانح نگاری اور آپ بیتی کے مقاصد کی طرف رہنمائی کی گئی؛ تاکہ بندہ شخصیات سے واقف ہو کر زندگی کے نشیب وفراز پر غور کرے اور جو معاملات ومسائل عبرت وموعظت کے ہوں ان سے سبق حاصل کرے۔
یہی وجہ ہے کہ عربی واردو دونوں زبانوں میں آپ بیتی لکھنے کا رواج قدیم، مضبوط اور مستحکم ہے، عصر حاضر میں طہٰ حسین کی ”الایام“ اور احمد امین کی ”حیاتی“ کا شمار عربی کی مقبول خودنوشت میں ہوتا ہے، اردو میں شعراء، ادباء اور علماء نے بھی بڑی تعداد میں آپ بیتیاں لکھی ہیں۔
اردو میں آپ بیتی لکھنے کا رجحان 1857ء کی پہلی جنگ آزادی کے بعد ہوا، میرے علم کے مطابق پہلی آپ بیتی مولانا جعفر تھانیسریؒ نے ”تواریح عجیب المعروف کالا پانی“ کے نام سے لکھی، جن آپ بیتیوں نے شہرت حاصل کی ان میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی ؒ کی ”نقش حیات“ مولانا عبد الماجد دریا آبادی کی ”آپ بیتی“، جوش ملیح آبادی کی ”یادوں کی برات“، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ کی ”کاروان زندگی“ مولانا منظور نعمانی ؒ کی ”تحدیث نعمت“ نواب سید خاں چھتاری کی ”یاد ایام“ عبد المجید سالک کی ”سرگذشت“ اختر حسین رائے پوری کی ”گرد راہ“ شوکت تھانوی کی ”مابدولت“ آغا سورش کاشمیری کی ”بوئے گل، نالہئ دل، دود چراغ محفل، قرۃ العین حیدر کی ”کار جہاں دراز ہے“، قدرت اللہ شہاب کا ”شہاب نامہ“ حضرت شیخ زکریاؒکی ”آپ بیتی“ شیخ محمد عبداللہ کی ”آتش چنار“ اسیر ادروی کی ”داستان ناتمام“ خاص طور پر قابل ذکر ہیں، اس فہرست میں بہار کے خود نوشت لکھنے والوں کو شامل کیا جائے تو شاد عظٰم آبادی کی خودنوشت ”شاد کی کہانی شاد کی زبانی“ کلیم الدین احمد کی ”اپنی تلاش میں“ ڈاکٹر کلیم عاجز کی ”ابھی سن لو مجھ سے“ ڈاکٹر راجندر پرشاد کی ”اپنی کہانی“ مولانا مناظر احسن گیلانی کی ”احاطہ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن“ اقبال حسین کی ”داستاں میری“ اور احقر (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) کی ”یادوں کے قافلے“ کا شمار مشہور ومقبول خودنوشت میں ہوتا ہے، یہ آپ بیتی کی فہرست سازی نہیں ہے، یہاں نہ اس کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کا موقع، حافظہ کی گرفت میں جو نام تھے وہ بے اختیار نوک قلم پر آگیے۔
”حیاتی“ اسی سلسلۃ الذہب کی آخری تو نہیں مضبوط کڑی ہے اور خود نوشت نگاری کے باب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے، حضرت نے اپنی اس آپ بیتی میں بزرگوں کے ذکر میں القاب وآداب کی پوری رعایت رکھی ہے، جو خانقاہی تربیت کا اثر ہے، وہ مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی اور مولانا سید محمد رابع حسنی رحمہما اللہ کا ذکر سماحۃ الوالد کے ساتھ کرتے ہیں، یہ احسان شناسی کی اعلیٰ مثال ہے۔ ورنہ اب تو مولانا بھی ہمارے دانشور لکھنا پسند نہیں کرتے، نام لے کر گذر جاتے ہیں، بلکہ ایک دانشور تو اسے جائز ہی نہیں سمجھتے، ”حیاتی“ میں حضرت نے حفظ مراتب کا پورا خیال رکھا ہے۔
”آپ بیتی“ لکھتے وقت مصنف کو ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ اس کا بیان، ”در مدح خود می گویم“ کے مصداق نہ بن جائے کبھی اپنے کو متواضع بنا کر پیش کرنے کی وجہ سے بھی بہت سی اہم باتیں رہ جاتی ہیں، اور بعد میں سوانح نگاروں کو اسے بیان کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے، مثال کے طور پر کاروان زندگی کو لے لیں حضرت مولانا علی میاں ؒ نے ان تمام احوال کو یکسر چھوڑ دیا تھا جس سے قاری کو ”در مدح خود“ کے فریب میں مبتلا ہونے کا خطرہ تھا، چنانچہ ایسے تمام احوال وواقعات کو مولانا عبد اللہ عباس ندوی ؒ نے ”میر کارواں“ میں بیان کر دیا، تب صحیح ترجمانی ہو سکی۔
حضرت مولانا سید شاہ تقی الدین ندوی فردوسی حفظہ اللہ کی ”حیاتی“ اعتدال کے ساتھ لکھی ہوئی آپ بیتی ہے، احوال وواقعات کے ذکر میں غیر ضروری دراز نفسی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی ایسی کتر بیونت کی گئی ہے کہ قاری کو احوال کے سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے، اس آپ بیتی میں حضرت دامت برکاتہم کی قوت حافظہ سے بھی ہم متاثر ہوتے ہیں، میں حضرت کی اس آپ بیتی ”حیاتی“ کو آپ بیتی کے باب میں ایک گراں قدر اضافہ سمجھتا ہوں، اگر شاعر نے ”انما التھنیات للاکفاء“ کہہ کر چھوٹوں کو مبارکبادی دینے کے حق سے محروم نہ کیا ہوتا تو اس کتاب کی تصنیف پر میں دل کی گہرائیوں سے انہیں مبارک باد پیش کرتا، فی الوقت صحت وعافیت کے ساتھ درازیئ عمر کی دعا پر میں اپنی بات ختم کرتا ہوں، دعا یہ بھی ہے کہ اللہ رب العزت حضرت کی دوسری کتابوں کی طرح اسے بھی قبول عام وتام نصیب فرمائے۔آمین یارب العالمین