✍️ مفتی توقیر بدر القاسمی
ڈایریکٹر المرکزالعلمی للافتا والتحقیق سوپول بیرول دربھنگہ بہار
_____________
مفتی صاحب! السلام علیکم و رحمۃ اللہ
امید کہ آپ بخیر ہوں گے۔
حضرت! رمضان المبارک کی آمد آمد ہے۔اس ماہ مقدس میں نماز،روزے، صدقات و تلاوت سے ہر ایک مومن جنت کا مشتاق و آرزو مند اور جہنم سے خلاصی کا طلب گار ہوتا ہے۔
اب ان عبادات اور جنت کے پیش نظر ایک سوال ہے۔دراصل ہمارے فرینڈ سرکل میں ایک شخص ملحد ہے۔اس کا ماننا ہے کہ قرآن نے جنت اور جنتی آدمی کا جو بیانیہ اور حلیہ پیش کیا ہے،وہ اس دنیا سے بالکل الگ ہے۔اسے تم لوگ بھی تسلیم کرتے ہو۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمہاری جنت میں جو ہوگا،وہ یہاں کا انسان یعنی ہم اور تم نہیں ہونگے،بلکہ وہ اپنے وجود Entity کے اعتبار سے دوسری مخلوق Creation ہوگی۔یہاں کا انسان یعنی ہم اور تم جنت جہنم اور اس کے پانے اور اس بچنے کی کوششوں کی جھنجھٹ سے مکمل آزاد ہیں۔
لہذا یا تو یہاں کے انسان کو ماہ مقدس اور عبادات پھر جنت کی ترغیب دیکر لالچی مت بناؤ اور جہنم کی ترہیب سے اسے ڈرپوک بننے پر آمادہ نہ کرو!یا پھر آپ قرآن میں کہیں اشارے کنائے سے بھی "یہی انسان ہوگا” ثابت کرسکتے ہو،تو فقط قرآن سے ہی اسے ثابت کرو!اور اسی دنیاوی انسان کی زبانی ثابت کرو! اسے اپنے طور سے قائل کرنے کی کوشش کی،مگر ناکام رہا۔
از راہ کرم اس سلسلے میں آپ قرآن کریم کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں! ہمیں معلوم ہے آپ آج کل کافی مشغول رہتے ہیں ۔تھوڑا سا وقت نکال کر جواب مرحمت فرمادیں! عنایت ہوگی!
اللہ پاک آپ کو سلامت رکھے آمین!
آپ کا ایک دینی بھائی اقبال عبد اللہ انڈیا
__________________
وعلیکم السلام ورحمت اللہ وبرکاتہ!
آپ نے جن کے حوالے سے درج بالا سوال ارسال کیا ہے،انکے حوالے سے عرض ہے کہ اصولی و اخلاقی طور پر انہیں ایسے سوال تبھی کرنا چاہیے،جب وہ قرآن مجید کو ایمان و یقین کے ساتھ ‘کتاب اللہ’ تسلیم کریں اور اسکے بیانیے کو مکمل ویسا ہی درست جانیں! جیسا کہ قرآن مقدس اپنے بارے میں "لاریب فیہ” بیان کرتا ہے.ورنہ منکر رہتے ہوۓ چیلنج کرنا تو ایسا ہی ہوگا کہ اندھا آنکھ سے محروم رہ کر بینا کی دیدہ کا انکار بھی کرے اور اس پر چیلنج یہ کرے کہ اے بینا جو کچھ تم دیکھتے ہو، وہ میں دیکھ نہیں پاتا،میں نہیں مانتا،اگر ایسا ہے،تو مجھے بھی یہ دکھاؤ!
ظاہر ہے اندھے کا آنکھ بنوانے سے قبل،چیلنچ شدہ کو دیکھنے دکھانے کی بات کرنا سراسر مضحکہ خیز ہی ہوگا۔
تو پہلے انہیں یہ باتیں گوش گزار کردیں اور اس بات کا انہیں قائل کریں! بصورت دیگر جو کسی رنگ کا قائل ہی نہیں،ہر ایک رنگ کا جو منکر ہو،اسکی زبان سے پھر "سفید اور کالے” کی بات سن کر عجیب سا لگتا ہے۔
خیر!
اب آییے قرآن مقدس کے بیانیہ اور موجودہ انسان کی جنت منتقلی کے بارے میں آیات مقدسہ کی طرف!
دیکھیے اصلا تو وہ درجنوں آیات جو حشر و نشر اور بعث بعد الموت کی حقیقت بیان کرتی نظر آتی ہیں،اس سوال کے جواب کے لیے کافی و شافی ہیں۔
تاہم جب اس معترض نے اس "دنیاوی انسان” کی زبانی اس حقیقت کو بتانے کی خواہش ظاہر کی ہے تو وہی سہی !
آپ سورہ بقرہ میں آیت ٢٥”كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْھَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِیْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۙ وَ اُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِھًا ؕ”(سورہ بقرہ آیت ٢٥)ترجمہ:جب کبھی اُن کو ان باغات سے پھل کھانے کو دیئے جائیں گے،تو کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے، جو اِس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا اور ( واقعی ) ان کو ملتا جلتا پھل دیا جائے گا”پر أدنی سا بھی تامل کریں،تو سوال مذکور کا جواب بآسانی تلاش کرلیں گے!
کیونکہ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس دنیا کا موجودہ انسان جنت کے باغات کے پھل پاکر جو کہیگا”یہ تو وہی ہے،جو اِس سے پہلے ہمیں دیا گیا تھا” ظاہر ہے وہ اسی گزشتہ دنیا کے پھل کے بارے میں کہیگا ناں،کیونکہ اس نے تو جنت سے پہلے اسی دنیا کو دیکھا ہے، یہیں اس کی بود وباش رہی ہے۔وہی اس کی یادداشت کا حصّہ ہوگی۔اور اسی کے سارے مناظر و اشیاء اور حقائق اسکے سامنے ہونگے!چنانچہ دیکھتے ہی وہ اپنی گزشتہ زندگی میں جو کچھ پایا ہوگا،اس کے مطابق وہ حالیہ جنتی زندگی میں بول اٹھے گا۔
لہذا منطقیانہ و فلسفیانہ اصول ” وحدت حال و محل،مکان و مکیں اور ظرف و مظروف” کے اعتبار سے نتیجہ تویہی نکلتا ہے،کہ وہ بندہ بھی اسی گزشتہ دنیا کا ہوگا۔
آیے دن ہم آپ جس طرح سے عوامی مجلس سے لیکر عدالت تک کسی کے کہیں موجود ہونے پر اسکے بیان سے ہی ثابت کرتے ہیں،کہ تم فلاں جگہ کے فلاں حادثے یا وا قعے کے متعلق آنکھوں دیکھا حال جو کچھ بتارہے ہو،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تم وہیں تھے!ٹھیک اسی طرح سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے،کہ جنت میں وہاں کا پھل دیکھ کر اس دنیوی پھل کا تذکرہ کرنے والا یہ ثابت کرتا ہے،کہ وہ اسی دنیا کا انسان ہے۔
یہ اور بات ہے کہ وہ بندہ تبعا اپنی عبادات اور اصلا رب کی مرضیات و فضل سے جنتی ہوگا اور وہاں اسکی کیا شان ہوگی،اسکا یہاں کویی اندازہ بھی نہیں کرسکتا!
باقی جنت کے حوالے سے "لالچی بنانے” اور جہنم کی بابت "ڈرپوک بنانے” سے اس معترض کی مراد کیا ہے ؟بالآخر لالچ اور بزدلی سے وہ کیا کہنا چاہتا ہے؟جب تک یہ واضح نہیں کردیتا، تب تک اس بابت کچھ کہنا بے سود ہے۔
امید کہ آپ کے اصل سوال کا جواب مذکورہ آیت مقدسہ اور پیش کردہ اصول وتمثیل کی روشنی میں بخوبی مل گیا ہوگا۔
آپ بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں!
آپ کا خیر اندیش توقیر بدر القاسمی الازہری