از قلم: مجاہدالاسلام ملی
آج ہم لوگ عرب ممالک میں مندر کا افتتاح یا جگہ کی فراہمی سن کر افسردہ اور بے چین ہوتے ہیں تو کہیں نہ کہیں ہم بھی ان حالات کے ذمہ دار ہیں۔
1970-75 میں عرب ممالک کی بڑی بڑی کمپنیوں میں ملازمت کے اشتہار اس طرح ہوتے تھے صرف مسلمان ہی اہل ہوں گے۔ لیکن مسلمانوں میں تعلیمی قابلیت نہ ہونے کی وجہ سے بہت کم تعداد میں درخواست پہنچتی تھی۔
ہندستان پاکستان اور بنگلہ دیش سے مسلمان عرب ممالک میں ملازمت کے لئیے بڑی تعداد میں جاتے تھے لیکن ڈرائیور، مزدور، باورچی اس طرح کی ملازمت کے لئے؛ جبکہ وہ وقت عرب ممالک کی ترقی کا تھا اور اس کے لئے انہیں اعلی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ضرورت تھی۔ پھر کمپنیوں نے اشتہار میں اضافہ کیا ۔۔ ” مسلمانوں کو ترجیح دی جائے گی” پھر بھی ہماری شرکت بالکل کم یا یوں کہئیے نا کے برابر ہی رہی ۔اس کے بعد کمپنیوں نے عام اشتہار جاری کردیا کہ ہر مذہب کے لوگ کمپنی میں ملازمت کے لئے اپلائ کرسکتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ایک بڑی تعداد میں اعلی تعلیم یافتہ غیر مسلم افراد عرب ممالک کی بڑی بڑی کمپنیوں کی اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہوتے رہیں پھر انہوں نے تدریجاً اپنی اپنی کمپنیوں میں عبادت کے لئے چھوٹی چھوٹی مورتی کا مطالبہ کیا اور آہستہ آہستہ راہ ہموار کرتے رہے اور آج یہ حالات ہیں کے ان عرب ممالک کی معیشت ہندو ملازموں کی محتاج ہے۔ اور فی زمانہ جب کہ یہ عرب حکمراں جو دنیوی ترقی میں اندھے ہورہے ہیں ، ان ہندوؤں کی خوشنودی کے لئیے مندر تعمیر کررہے ہیں تو پھر تعجب کی کیا بات ہے۔
جبکہ مودی حکومت انہیں بڑے بڑے ترقیاتی پروجیکٹ بھی فراہم کررہی ہے جو دیگر مسلم ممالک بشمول پاکستان فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
آج بھی عرب ممالک میں ہندستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد صاف صفائی، خدمت، طباخ، ڈرائیونگ، اور ائیرپورٹ پر چھوٹی موٹی ملازمت مثلا بیت الخلاء کی صفائ وغیرہ، اس قسم کی خدمات پر مامور ہیں۔