جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول
جمہوری اور سیکولر ملک میں  بقائے باہم کے  اصول

جمہوری اور سیکولر ملک میں بقائے باہم کے اصول ✍️ مسعود جاوید ___________________ پچھلے دنوں ٹرین پر سوار بعض مسافروں کا ریل گاڑی کے ڈبوں کی راہداریوں میں نماز ادا کرنے کے موضوع پر کچھ لکھا تھا اس پر بعض پرجوش مسلمانوں بالخصوص فارغين مدارس اور دینی جماعتوں سے نسبت رکھنے والوں نے ناراضگی کا […]

Uniform civil code

یونیفارم سول کوڈ: سوجھ بوجھ کی ضرورت ہے

تحریر: شعیب حسینی ندوی

یونیفارم سول کوڈ پر میں نے پہلے بھی یہ رائے دی تھی کہ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا بننے نہیں دینا چاہیے بلکہ دیگر قبائل اور ذاتیں اس سے بری طرح متاثر ہونگی اور اسکی شناخت اور پہچان مٹ جائے گی اور انکے روایتی طور و طریق تہہ و بالا ہونگے، اب تک بی جے پی اسکو نافذ کرنے کی ہمت اسی لیے نہیں کر سکی ہے کیونکہ اس سے ہندوؤں کی بڑی تعداد نا‌خوش ہوسکتی ہے، لیکن یہ انکا ایجنڈا ہے جو کہ ہندتوا کا ایجنڈا ہے کہ برہمن وادی سوچ سب کو نگل جائے اور جو منوسمرتی نے ہزاروں سال دلت اور نچلی ذاتوں کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا اسی طرح نئی غلامی کا پھندا انکے گلے میں ڈال دیا جائے۔

انکی کوشش ہے کہ ذہنوں میں یہ ڈال دیا جائے کہ اس سے صرف مسلمان ٹارگٹ ہوں گے اور انکے پرسنل لاز ختم کیے جائیں گے اور ہندوانہ روایات کو بالادستی حاصل ہو جائے گی، اگر آپ گودی میڈیا کی بحثوں کو دیکھیں گے تو آپ اس نتیجہ پر بآسانی پہنچ جائیں گے کہ ہندوؤں کو میٹھی گولی دے کر سلانے اور مسلمانوں کو زچ کر کے بر انگیختہ کرنے کی کوشش ہورہی ہے تاکہ اپنے مفادات بغیر مزاحمت کے پائے جا سکیں۔ 

تمام  مسلمانوں کو اور خاص کر ملی تنظیموں اور اداروں کو سمجھنا چاہیے کہ ہر جگہ فرنٹ لائن پر کھیلنا عقلمندی نہیں ہوتا بلکہ کبھی بیک فٹ پر جا کر شارٹ ماری جاتی ہے تاکہ گیند پر زوردار دھکا لگے۔

لا کمیشن کی طرف سے دیے گئے سوالات پر اپنے جوابات تیار کرنا اور اعتراضات پیش کرنا نیز متعلق ادارے کے سامنے جاکر اپنا کھلا موقف واضح کرنا یقینا ضروری امر ہے لیکن اس سے زیادہ نا گزیر یہ ہے کہ الگ الگ قبیلوں کے ذمہ داران سے جاکر بامقصد ملاقات ہو اور مشترک موقف تشکیل پائے، اس میں سیاسی چہروں کو قریب کرنے کے بجائے سماجی اثر رکھنے والی شخصیات کو ساتھ لایا جائے اور متحدہ فلیٹ فارم تیار کیا جائے پھر اس میں قیادت کی کرسی غیروں کے حوالہ کر کے پچھلی سیٹ پر بیٹھ کر مقابلہ کیا جائے تو اس کے مضبوط نتائج اور موجودہ حالات میں مفید اثرات مرتب ہو سکیں گے۔

اگر ہم نے اس کو مسلمان بنام حکومت بنا دیا تو یہ ہماری سیاسی غیر شعوری کی دلیل ہوگی، ساتھ ہی اگر ہماری تنظیموں کو صرف یہ فکر رہی کہ انکے حصہ داری اس مزاحمت میں کتنی ملت کے سامنے درج کی جارہی ہے اور کتنا اس لڑائی میں ہمارا نام اور لیٹر پیڈ استعمال ہو رہا ہے تو یہ غیر حکیمانہ مقابلہ شکست کی وجہ بنے گا، ابھی مخفی طریقہ پر غیروں کے پیچھے چھپ کر مقابلہ کرنے کا وقت ہے، اور یہی ہم کو پیش قدمی دلائے گا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: