۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

سید سرفراز احمد

فرقہ واریت،جانبدار میڈیا اور بے حس الیکشن کمیشن


سیکولرزم سے آمریت کی طرف بڑھتا بھارت

✍️ سید سرفراز احمد

اس مضمون کا جو سہ رکنی عنوان دیا گیا وہ سال 2024 کے جاری لوک سبھا انتخابات میں اپنا مرکزی کردار ادا کررہے ہیں اور ان تینوں کا ان انتخابات سے بہت گہرا تعلق ہے جو سماج اور اسکے باشندوں کی سوچ کو بدلنے اور سماج میں اعتماد یا عدم اعتماد کی فضاء پیدا کرنے کا کام کرسکتے ہیں یہ بات ملک کے تمام باشندوں کیلئے کوئی نئی نہیں ہیکہ اس ملک کا نظام سیکولرزم جمہوریت اور اسکے دستور پر قائم ہے جسمیں یہ گنجائش باقی نہیں کہ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ملک کے کثیر المذاہب میں تفریق پیدا کرے وہ بھی ایسے خاص موقع پر جبکہ ملک بھر میں لوک سبھا انتخابات چل رہے ہوں لیکن ہوتا یہ ہیکہ ہر بار انتخابات میں عوامی مسائل پر بات کرنے کے بجائے سماج میں ہی پھوٹ ڈال دی جاتی ہے جو محض رائے دہندوں کو اپنی جانب پر کشش بنانے کا ایک سیاسی حربہ ہے ہم دیکھ چکے ہیں کہ سال 2014 اور 2019 کے لوک سبھا انتخابی جلسے فرقہ پرستی کے بیانات سے بھرے پڑے تھے یعنی اکثریتی طبقہ میں رام مندر کا جوش و ولولہ پیدا کرکے رام مندر پر ووٹ مانگا گیا اور مابعد تشکیل حکومت بالآخر رام مندر کا افتتاح بھی انجام دے دیا گیا لیکن سوال یہ ہیکہ کیا ملک سےفرقہ واریت ختم ہوئی؟ اور سوال یہ بھی ہیکہ کیا پچھلے دس سالوں میں عوامی مسائل حل ہوئے؟بالکل بھی نہیں کیونکہ یہ وہ سیاسی حربہ ہے جو کبھی نہ ختم ہونے والا ہے چونکہ بار بار حکمرانی کی راہ کو ہموار کرنے کیلئے یہ سب سے آسان طریقے کی سیاست ہے جبکہ ایک سیکولر ملک میں حکمرانی کیلئے ایسی سیاسی پارٹی کا انتخاب کرنا چاہیئے جو تمام مذاہب میں اعتماد کی فضاء بحال کرے تمام کے ساتھ مساویانہ سلوک اختیار کرے ملک کی ہم آہنگی کو برقرار رکھے اور بلا تفرقہ سماج کے مسائل کو حل کرنے کیلئے اپنے فرائض میں کوتاہی نہ برتے اگر ہر سیاسی جماعت ان نکات پر عمل کریں گی تو ملک میں ایک بہتر عوامی حکمرانی ہونے کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے ملک کی میڈیا الیکشن کمیشن اور نظام عدل کا تعاون سب سے اہم ہے تب ہی ایک سیکولر ملک کی بقاء میں توازن آنا ممکن ہے۔

موجودہ لوک سبھا انتخابات کے پانچ مراحل گذر چکے ہیں جسمیں تقریباً یہ طئے ہوچکا ہیکہ ملک کے مستقبل کی باگ ڈور کس کے ہاتھ جانے والی ہے باقی دو مرحلے بھی اس ہفتے مکمل ہوجائیں گے اور عوام نے جنھیں انتخاب کیا ہے وہ صاحب مسند ہوجائیں گے لیکن ایک چھبتا ہوا سوال یہ ہیکہ یہ لوک سبھا انتخابات نے اپنے پیچھے کیا کچھ چھوڑ کر جارہے ہیں جسکا جواب اگر دیا جائے تو ایک لفظ ہی کافی ہے وہ ہے نفرت جی ہاں اس لوک سبھا انتخابات میں اس مشترکہ سماج میں جتنی نفرت اور زہر مسلمانوں کے خلاف پھیلایا گیا شائد ہی وہ آزاد ہند کے ماضی میں بھی نہ ملے فرقہ پرستی کی سیاست نے اس ملک کو کچل ڈالا جمہوریت کی دھجیاں آڑائی گئی دستور کی پامالی کی جاتی رہی سیکولرزم کا بھدا مذاق بنادیا گیا حکمران جماعت و ملک کے قدآور سیاستداں وزیراعظم نے ملک کے مسلمانوں کے خلاف سماج میں جو زہر بھرا کیا وہ زہر آنے والے دنوں میں خطرناک ثابت نہیں ہوسکتا؟مودی جی، جے پی نڈا ،امیت شاہ، یوگی،ہیمنت بسوا شرما نے اس لوک سبھا انتخابات میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی کھلے عام خلاف ورزی کرتے ہوئے اسلام شریعت مساجد اور مسلمانوں کے خلاف کیا کچھ نہیں کہا لیکن بھارتی الیکشن کمیشن کے لب سلے ہوئے تھے الیکشن کمیشن کی پانچویں مرحلے تک کی خاموشی نے ملک کی اقلیت اور سنجیدہ سماج کو سب کچھ سمجھادیا الیکشن کمیشن کی خاموشی نے نفرتی قائدین کو مزید تقویت پہنچانے کا کام کیا جسکا انھوں نے بھر پور فائدہ اٹھایا آج بھی مودی جی کے درانداز گھسپٹیا ذیادہ بچے پیدا کرنے والے جملے ہر مسلمان کے اعصاب پر گردش کررہے ہیں جسکو فراموش کرنا ناممکن سی بات ہے یوگی کی وہ نفرتی تقریر آج مسلمان اترپردیش میں سڑک پر نماز نہیں پڑ رہا ہے مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز بند ہوچکی ہے اور آئندہ پانچ سالوں میں جو کچھ باقی ہے وہ بھی نظر نہیں آئے گا مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ہرگز تحفظات نہیں دیں گےیوگی نے صاف اعلان کردیا کہ انکی حکومت مسلمانوں پر ظلم و ذیادتی کرتے ہوئے اترپردیش کو ترقی یافتہ بنانا چاہتی ہے جس سے ریاست میں امن بھائی چارہ قائم ہوسکتا ہے عوام کو روزگار بھی مل جائے گا اور شائد ریاست سے غریبی بھی دور ہوجائے گی یوگی کی تقریر میں کہیں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ ریاست کی فلاح و ترقی کیلئے کیا کام کیئے گئے کیا اترپردیش کی عوام نے کویڈ کے وقت گنگا ندی میں پڑی لاشوں کو فراموش کردیا ہے؟کیا پردیش کی عوام نے آکسیجن کی قلت سے ہونے والی بچوں کی اموات کو یاد نہیں رکھا؟یقیناً عوام نے یہ سب یاد رکھا ہوگا اور اسکا جواب بھی دینے کیلئے اپنے آپ کو آمادہ کرلیا بھی ہوگا کیونکہ یہ تکلیف اس انسان کو ہوتی ہے جسکا اپنا خاندان ہو بیوی بچے ہو جس نے اپنے والدین کو کھویا ہو جو اپنے بیوی بچوں کو کھویا ہو بھلا یوگی جی کو اس بات سے کیافرق پڑسکتا ہے جنکا اپنا کوئی خاندان ہی نہیں ہے اسی لیئے وہ اپنی تانا شاہی میں مگن ہے کتنے ایسے گھر تھے جسکو یوگی سرکار نے بلڈوزر سے مسمار کردیا یہ تو تکلیف اس فرد سے بھلا بہتر کون جان سکتا جس نے خون پسینہ بہاکر ایک ایک اینٹ جمائی ہو شائد عوام اسکا بھی جواب دینے کیلئے تیار ہے۔

یہاں عنوان کے دوسرے پہلو پر بات کریں گے اگر ایک سیکولر ملک کی سیاست فرقہ پرستی کو بڑھنا چاہتی ہو سماج کے ایک بڑے طبقہ پر ظلم و جبر کے ذریعہ انھیں ہراساں کرنا اور سیکولرزم کے نام پر حکومت سازی کے بعد انکی مذہبی آزادی سلب کرتے ہوئے انھیں دستور کے بنیادی حق سے محروم کردینا تو ذرا یہ بتائیں کہ اسمیں سیکولرزم کہاں باقی ہے؟یہ تو آمریت کی طرف رواں دواں ہے اگر ایسے حالات پیدا ہورہے ہوں تو انکو آئینہ دکھانے کا کام کرنا پڑتا ہے جس کیلئے شفاف میڈیا کا کرداد اہم ہوتا ہے بھاجپا سرکار کے آنے کے بعد وہ میڈیا جو بڑی شان سے اپنے آپکو قومی میڈیا قرار دیتا ہے لیکن اسکا کردار ویسا نہیں ہے ایسا لگتا ہیکہ جیسے اس قومی جانبدار میڈیا نے بھاجپا کےسرکار میں آنے سے پہلے ہی اپنی گود بھرائی کرلی تھی سنگھ پریوار جس نظریہ کے تحت آگے بڑھ رہا ہے اس ملک سے سیکولرزم کی شبیہ کو بگاڑ چکا ہے اگر یہی میڈیا اپنی شفاف صحافت کے ذریعہ دنیا کو آئینہ دکھاتا تو اس ملک کی آج یہ حالت نہ ہوتی اور نہ ہی آج کی جو انتخابی ریالیوں میں زہر افشانی ہورہی ہے وہ بھی نہ ہوتی کیونکہ یہ درباری میڈیا اپنے آپ کو اس آمریت کی طرف برھنے والے نظریات کے حوالے کرچکا ہے اب کسی میں یہ ہمت باقی نہیں ہیکہ وہ کھلے عام نفرت کے پروانوں سے سوال کرسکے ہم نے یوگی مودی جی امیت شاہ و دیگر کا انٹرویو دیکھا ہیکہ کسطرح کے سوالات کیئے جاتے ہیں جو زہر ریالیوں میں گھولاجاتا ہے اس سے متعلق آج کا درباری میڈیا ایک سوال بھی پوچھنے سے کتراتا ہے جس سے یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہیکہ مودی اینڈ کمپنی بڑے بڑے سرمایہ دار اور میڈیا کے ساتھ خرید و فروخت والا معاملہ کرچکے ہیں جس میڈیا کا کردار ایک عرصہ تک مشکوک تھا لیکن آج اسی میڈیا نے یہ ثابت کر دکھایا کہ ہم جانبدار اور واقعتاً گودی میڈیا ہے تب ہی راہل گاندھی کھلے عام جلسوں میں میڈیا کو خوب لتھاڑ رہے ہیں تعجب خیز بات یہ بھی ہیکہ اسی گودی میڈیا جتنے انٹرویو نریندر مودی جی کے ساتھ کررہی ہے ایک انٹرویو بھی وہ راہل گاندھی کے ساتھ نہیں کرنا چاہتے یہ اس بات کی کھلی دلیل ہیکہ گودی میڈیا مودی اینڈ کمپنی کا ہی حصہ ہے ملکی و عالمی سطح پر بھارتی قومی میڈیا نے نہ صرف اپنی ساکھ کھودی ہے بلکہ اس ملک کی صحافت کا بیڑہ غرق کردیا ہے اب ہم دیکھیں گے کے اس لوک سبھا انتخابات کے سات مرحلوں کے بعد یہی میڈیا چیخ چیخ کر نتائج سے پہلے ہی مودی اینڈ کمپنی کی جیت کے جھنڈے نصب کرے گا یہاں ہم یہ کھل کر کہہ سکتے کہ اس ملک میں مذہبی منافرت کو بڑھاوا دینے والوں کا گودی میڈیا نے کھل کر ساتھ دیا ہے آئندہ جو بھی اس ملک کا نقصان ہوگا گودی میڈیا بھی اتنا ہی اسکا زمہ دار ہوگا جتنا کہ نفرت کے شیدائی ہونگے۔

تیسرا جو پہلو ہے وہ الیکشن کمیشن کی بے حسی یعنی اس لوک سبھا الیکشن میں الیکشن کمیشن کو جو اپنے فرائض ادا کرنے تھے اسمیں وہ بہت پیچھے دکھائی دیا انتخابی ماحول میں اہم رول الیکشن کمیشن کا ہوتا ہے حکمران جماعت ہو کہ حزب اختلاف وہ بناء امتیاز کیئے انتخابی سرگرمیوں کا نگران کار ہوتا ہے ابھی تک پانچ مرحلے گذر چکے ہیں اور انتخابی ریالیوں میں حد درجہ کی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوچکی ہے لیکن الیکشن کمیشن کی بے حسی نے عوام کے زہنوں میں کئی سوال کھڑے کردیئے وزیر اعظم کے نفرت بھرے بیانات کے بعد بھی الیکشن کمیشن ٹس سے مس نہیں ہوا جب کانگریس نے شکایت درج کروائی تو تب جاکر صرف بی جے پی کے نام سے نوٹس جاری کی اسکے علاوہ یوگی بسوا شرما امیت شاہ نے انتخابی ریالیوں میں نفرت بھری تقاریر کی لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی چار روز قبل الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت اور حزب اختلاف کو ہدایت دی کہ اس ملک کیلئے انتخابات سے ذیادہ اہم ملک کی سالمیت ہے انتخابی ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کی تلقین کی اور مذہبی منافرت تقاریر کو روکنے کی بھی ہدایت دی الیکشن کمیشن کی یہ ہدایات ایک ایسے وقت میں آئی ہے جبکہ انتخابی مراحل اپنے آخری دور میں ہے اگر یہی انتباہ الیکشن کمیشن قبل از وقت کرتا تو شائد یہ صورتحال نہ ہوتی الیکشن کمیشن نے عوام میں اپنا اعتماد بہت کمزور کرلیا ہے چونکہ انتخابات کے اس پورے دورانیئے میں الیکشن کمیشن نے کبھی پانچ کبھی سات اور کبھی گیارہ دن بعد رائے دہی کا تناسب پیش کیا وہ بھی رائے دہی کے تناسب میں دو چار فیصد کا اضافہ بتایا جس سے عوام کے زہنوں میں شک و شبہات کا اضافہ ہوا ہے آج لوگ ٹی این شیسن کو یاد کررہے ہیں جنھوں نے الیکشن کمیشنر کی حیثیت سے1990تا 1996 کے دور میں جو اپنی خدمات انجام دی ہےجنکی شفافیت کی نظیر آج تک بھی کسی میں نہیں پائی گئی حکمران ہو کہ حزب اختلاف وہ رتی برابر بھی انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کو برداشت نہیں کرتے بلکہ غیر جانبدار رہتے ہوئے اپنے فرائض کو انجام دیا اب رہا سوال موجودہ الیکشن کمیشن اپنے فرائض سے کیوں دور بھاگ رہا ہے؟یا پھر اس کے سر پر حکمران جماعت کے خوف کا سایہ ہے؟اگر ایسا ہے تو یہ بڑا ہی حساس معاملہ ہےچونکہ ملک کے باوقار قانونی ادارے نظام عدل نظم و نسق و میڈیا اگر وقت کی حکومت کے آگے سر بسجود ہوجائے تو وہ دن دور نہیں کہ پھر سے صاحب اقتدار اگر چہ اقتدار میں آجائے تو یہ ملک سیکولرزم سے آمریت میں آسانی سےبدل سکتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: