Slide
Slide
Slide

ماضی تا حال، مسئلہ فلسطین اور جامعہ ملیہ

محمد علم اللہ، نئی دہلی

مسئلہ فلسطین طویل عرصے سے عالمی سطح پر انصاف اور انسانی حقوق کے علمبردار افراد اور اداروں کے لیے بحث کا موضوع رہا ہے۔ ان اداروں میں ہندستان کا مشہور تعلیمی ادارہ جامعہ ملیہ اسلامیہ بھی ہے، جس کی سماجی انصاف اور عالمی امن سے متعلق معاونت اور حصہ داری کی ایک لازوال تاریخ رہی ہے۔ اُسی جامعہ انتظامیہ کی جانب سے حالیہ صہیونی دہشت گردی کی مناسبت سے 10 اکتوبر 2023 کو جاری کردہ ایک سرکلر میں، چیف پراکٹر کی جانب سے کہا گیا کہ طلبہ کو کیمپس میں کسی میٹنگ یا اجتماع کی اجازت نہیں ہے۔ متعلقہ شعبہ یا یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ، یونیورسٹی کیمپس میں بغیر پیشگی اطلاع کے کسی بھی قسم کے پروگرام کا انعقاد ممنوع ہوگا اور حکم کی پاسدارنی نہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا ہے کہ جامعہ انتظامیہ کو کہیں سے سُن گُن مل گئی تھی کہ کچھ طلبہ کیمپس میں اسرائیلی بربریت کے خلاف فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کے لیے ایک ریلی نکالنا چاہتے تھے۔ وہیں متعدد طلبہ تنظیموں کا الزام ہے کہ انھوں نے اس سلسلہ میں کیمپس میں احتجاج کے لیے درخواست دی تھی لیکن ان کی درخواست قبول نہیں کی گئی۔ 

کاش جامعہ انتظامیہ کو احساس ہوتا کہ اس ادارے کا وجود ایک تحریک، ملک پر بیرونی قبضے کے خلاف جدوجہد اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کو حکومت سے آزاد کروانے کے لیے ایک احتجاج کا مرہون منت ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہوگا کہ اسرائیلی جارحیت پر کیمپس میں احتجاج کرنے پر طلبہ کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، پوسٹر پھاڑ دیے گئے، ان کے ہاتھوں سے فلسطینی جھنڈوں کو چھینا گیا اور ان کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کرکے ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہی نہیں بلکہ 13 اکتوبرکو کیمپس میں تالا لگا کر نماز جمعہ سے روکنے کی بھی کوشش کی گئی، جس میں عین نماز کے وقت طلباء کے شدید احتجاج کے بعد پولس نے مداخلت کرکے گیٹ کھلوایا۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے نوجوان صحافی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق طالب علم افروز عالم ساحل نے بجا طور پر اپنے فیس بک وال پر لکھا ہے: “مسجد الاقصیٰ کیمپس میں مدفون مولانا محمد علی جوہر کی روح کو کتنی تکلیف پہنچی ہوگی، جب انھیں یہ خبر ملی ہوگی کہ ان کی قائم کردہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ کے ہاتھوں سے فلسطین کا جھنڈا چھینا جا رہا ہے۔”

یونیورسٹی میں کس کے اشارے پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے یہ کہنے والی بات نہیں ہے لیکن جو لوگ اس قسم کا کھیل کھیل رہے ہیں انھیں تاریخ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے کہ اس یونیورسٹی کے قیام کا مقصد کیا تھا اور اسکے بانیان کی رائے اس حوالے سے کیا تھی؟ یہاں پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ جامعہ ملیہ کے عملے کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جنہیں ان کے موجودہ مقام پر پہنچانے میں اس ادارے اور اس کی ماں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے پال پوس کر یہاں تک پہنچایا ہے۔ علیگڑھ کا یہاں پر خاص طور پر ذکر اسلئے کردیا کیونکہ جامعہ کی طرح فلسطین حامی احتجاج کو وہاں بھی اسی طرح کچلنے کی کوشش کی گئی ۔ بہر حال آج کے اس مضمون میں ہم اسی موضوع پر گفتگو کریں گے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے فلسطین کا کیا رشتہ ہے اور یہ کہ جامعہ کے چوٹی کے قائدین کا اس بارے میں کیا نظریہ تھا۔

انگریز مصنف ایچ جی ویلزنے تحریک آزادی کے نمایاں مجاہد،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانی اور سب سے پہلے وائس چانسلر محمد علی جوہر کے بارے میں کہا تھا کہ ان کے پاس میکالے کا قلم، برک کی زبان اور نپولین کا دل تھا۔ مولانا عبد الماجد دریا آبادی سمیت متعدد دانش وروں نے لکھا ہے کہ جوہر کو عالم اسلام کی بڑی فکر تھی، اور اسی سبب انھیں فلسطینیوں نے اس قدر عزت دی کہ یروشلم کے مفتی اعظم امین الحسینی نے نہ صرف انھیں مسجد الاقصی کے مقدس احاطے میں آخری آرام گاہ کے لیے جگہ فراہم کی بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عرب سرزمین پر جنازے کے جلوس میں وفود نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر جوہر کی جانب سے ان کے مقصد کی غیر متزلزل حمایت کا اعتراف کیا گیا تھا۔

فلسطین کے لیے ایک نئی پالیسی کی ضرورت پر معروف صحافی سیما سین گپتا اپنے ایک مضمون میں کہتی ہیں کہ محمد علی جوہر فلسطینیوں کے ایک آزاد وطن کے حقوق کے بارے میں اتنے پرجوش تھے کہ وہ برطانوی حکومت اور دیگر مغربی طاقتوں کا سامنا کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے تھے اور یہی جذبہ ہندستانیوں کی ایک بڑی اکثریت کے ساتھ مشترک ہے کیوں کہ عالمی سطح پر نوآبادیات کے خاتمے کی کوششوں اور نسلی امتیاز کے خلاف لڑائی میں جامعہ کے بانیان کا نمایاں کرداررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے لیے ہندستان اور فلسطین دونوں نے مشترکہ بنیاد رکھی، خاص طور پر ہندستان کی تحریک آزادی کے دوران، جب آزادی پسند ہندستانیوں نے خود ارادیت کے لیے اپنی جدوجہد اور فلسطینیوں کے خود مختار وطن کے مطالبے کے درمیان مماثلتیں دریافت کیں، عوامی سیاست اور تحریکوں پر مبنی اخلاقی جدوجہد کے رہنما ہونے کے ناطے مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو دونوں نے انصاف اور اخلاقیات کے مسائل کی اہمیت کا اعتراف کیا اور ہندستان کو اس کے لیے واضح طور پر کھڑے ہونے کی ضرورت کو تسلیم کیا۔

4 جنوری 1931 کو لندن میں گول میز کانفرنس کے بعد مولانا محمد علی جوہر کا انتقال ہوا تو انھیں یروشلم میں دفن کیا گیا، کیوں کہ انھوں نے گول میز کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں کہا تھا: “میں یہاں آزادی لینے آیا ہوں۔ میں آزادی لے کر ہی واپس جاؤں گا۔ وگرنہ اسی ملک میں مرجاؤں گا۔ اگر آپ مجھے ہندستان میں آزادی نہیں دے سکتے تو اس ملک میں میری قبر کے لیے جگہ دینی پڑے گی۔”

سیرت محمدعلی کے مصنف رئیس احمد جعفری کے بقول، ‘نعش بذریعہ نار کنڈا جہاز ٹیلری بندر سے بیت المقدس روانہ کی گئی،21 جنوری کو پورٹ سعید پہنچی۔ شاہ مصر کے نمائندے ،وزیر اعظم اورمشائخین شہر پورٹ سعید جلوس میں شامل تھے۔ مسجد عباس میں نماز جنازہ ادا کی گئی، مصری پولس نے سلامی دی، اور جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ شہزادہ محمد علی نے محمد علی مرحوم کے لیے غلاف کعبہ کا ایک ٹکڑا تابوت پر رکھنے کے لیے مرحمت فرمایا، مرحوم کا کفن خالص کھدر کا تھا۔ نعش یروشلم 23 جنوری کو پہنچی،بعد نماز جمعہ جنازہ کی نماز پڑھی گئی اور لاکھوں نمناک آنکھوں کے ساتھ شہید ملت کو دفن کر دیا گیا۔’ مسجد الصخرۃ کے قریب آج بھی ان کی قبر پر لکھا ہوا ہے: ‘‘ضریح المجاہد العظیم مولانا محمد علی جوہرالہندی تغمدہ اللہ برحمتہ’’۔ قسمت کی یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ غلامی نے محمد علی کا تعاقب مرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا اور جس زمین یعنی بیت المقدس پر انہیں دفن کیا گیا بالآخر اس پر ایسی قوم کا قبضہ ہوگیا جس نے ظلم اور بے رحمی میں ایک نئی مثال قائم کی ہے۔

نوجوان اسکالر افروز عالم ساحل نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: ‘‘ وہ واحد ہندستانی تھے جنھیں مسجد اقصیٰ کے احاطے میں دفن کیا گیا تھا۔ اس اقدام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہندستان کے مسلمانوں کو مذہبی تعلق سے فلسطین سے اسی طرح جوڑا جائے جس طرح وہ مکہ اور مدینہ سے محبت کرتے ہیں۔ آپ کو یروشلم میں دفن کرنے کا فیصلہ ان کے دوستوں، رشتہ داروں اور پیروکاروں نے کیا تھا، جہاں سے حضور اقدس نے جنت کا سفر کیا تھا۔’’

سبھاش چندر بوس، جو ہٹلر کے جرمنی سے قربت کی وجہ سے جانے جاتے تھے، فلسطین میں انگریزوں کی متضاد اور متزلزل پالیسی کے ناقد تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اسی کی وجہ سے بالآخر موجودہ تعطل پیدا ہوا ہے۔ بوس محمد علی جوہر کی فکر سے کافی متاثر تھے۔ انھوں نے یہودیوں اور فلسطینیوں دونوں کو بیک وقت مطمئن رکھنے کی برطانیہ کی پالیسی پر اعتراض جتایا تھا۔ خود گاندھی جی (جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان میں سے ایک) یہودی قیادت کے سخت ناقدین میں سے تھے۔ اپنے پرچے ہریجن میں اسرائیلی ریاست کے قیام سے دو سال قبل 1946 میں انھوں نے لکھا تھا: ’’انھوں نے(اسرائیل)امریکہ اور برطانیہ کی مدد سے خود کو مسلط کرنے کی کوشش میں سنگین غلطی کی ہے اور دہشت گردی کا ننگا ناچ اب شروع ہوگا‘‘۔ 26 نومبر 1938 کو انھوں نے ’’ہریجن‘‘ میں پھر کہا: ’’فلسطین اسی لحاظ سے عربوں کا ہے جس طرح انگلستان انگریزوں کا ہے یا فرانس فرانسیسیوں کا ہے۔‘‘

گاندھی جی سے متعلق تحریروں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے فلسطین میں یہودی قومی ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے اسے غلط اور غیر انسانی قرار دیا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہودی وطن کے قیام کے لیے مقامی عرب آبادی کو بے گھر کرنا انسانیت کے خلاف جرم ہوگا۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ یہودی صرف ’’عربوں کی خیر سگالی کے ساتھ‘‘فلسطین میں آباد ہو سکتے ہیں اور اس کے لیے انھیں ’’برطانوی آسرا (اسلحہ اور طاقت) کو چھوڑنا پڑے گا۔‘‘ان کا ماننا تھا کہ کوئی بھی مذہبی عمل، جیسے کہ یہودیوں کا فلسطین ’’واپس جانا‘‘، سنگین یا طاقت کے بل پر نافذ نہیں ہونا چاہیے بلکہ عربوں کی خیر سگالی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ گاندھی جی کا خیال تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کے وطن کا تصور دنیا بھر میں یہودیوں کے حقوق کی لڑائی سے متصادم ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ کیا یہودی، جو پہلے ہی دنیا کے مختلف حصوں میں آباد ہو چکے ہیں، اگر فلسطین ان کا واحد گھر ہے تو وہ ان دیگر علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہونے کے خیال کا خیرمقدم کریں گے؟-

ہندستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کئی دہائیوں تک نوزائیدہ ملک کی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں اہم کردار تھا۔ کہا جاتا ہے کہ نہرو پر گاندھی جی کی سامراج دشمنی نے کافی گہرا اثر ڈالا تھا، اور اسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قرارداد 181 (فلسطین کی تقسیم) کے خلاف ہندستان نے ووٹ دیا تھا۔ ہندستان نے 1950 میں اسرائیل کو صرف ایک ’’حقیقت واقعہ‘‘ کے طور پر تسلیم کیا تھا لیکن وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ نے 1992 میں اس کو ’’قانونی حقیقت‘‘ تسلیم کرتے ہوئےسرکاری سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ ہندستان ان پہلے غیر عرب ممالک میں شامل تھا جنھوں نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) کو فلسطینیوں کا واحد نمائندہ تسلیم کیا تھا اور اس کو ہندوستان میں آفس کھولنے کی اجازت دی تھی۔ 1988 میں ہندستان نے فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کیا تھا اور اس کو سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی۔

یہ اور اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیان اور آزادیٔ ہند کے سرخیل مسئلہ فلسطین پر بالکل واضح نظریہ رکھتے تھے۔ شاید اسی وجہ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اس تحریک سے وابستہ افراد کی یادگاریں اور اثرات آج بھی ثبت ہیں۔ جامعہ میں جہاں ایک طرف فلسطین حامی معروف امریکی فلسفی نوم چومسکی کے نام سے باضابطہ ایک بلڈنگ ہے وہیں یاسر عرفات مرحوم جوایک ممتاز فلسطینی رہنما، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے چیئرمین اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کے وکیل تھے، کے نام سے ایک وسیع و عریض ہال ہے۔ اسی طرح فلسطینی نژاد امریکی اسکالر، ادبی نقاد اور فلسطینیوں کے حقوق کے وکیل آنجہانی ایڈورڈ سعید کے نام سے بھی باضابطہ ایک ہال ہے جو جامعہ سے مسئلہ فلسطین پر اس کے اٹوٹ رشتے اور یکجہتی کی نشانی ہے۔

جامعہ میں انڈیا عرب کلچرل سنٹر اور ویسٹ ایشین اسٹڈیز جیسے مراکز فلسطین کے حوالے سے حکومت ہند کی خارجہ پالیسی کو تغذیہ فراہم کرتے ہیں۔ ان سب کے علاوہ حکومت ہند فلسطینی کاز کی آج بھی حمایت کرتی ہے۔ ہندستان اور فلسطین کے درمیان ایک مشترک عنصر یہ بھی ہے کہ دونوں برطانوی استعمار کی کالونی رہے ہیں اور دونوں نے تقریباً ایک ساتھ ہی تقسیم کے کرب اور دُکھ کو جھیلا ہے اور دونوں کو ہی نسلی تفوق کے علم برداروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گاندھی جی، جواہر لال نہرو، مولانا آزاد کے ساتھ جامعہ برادری ہمیشہ قضیہ فلسطین کے حوالے سے فلسطینیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی ہے۔ ایسے میں جامعہ انتظامیہ کو فلسطین سے متعلق کوئی بھی موقف اختیار کرنے سے پہلے جامعہ کے تاریخی موقف کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے۔

ابھی زیادہ دن نہیں گذرے جب اسی جامعہ کے انٹرنس امتحان میں طلبہ سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ بیت المقدس کہاں واقع ہے اور آپشن کے طور پر جو نام دیے گئے تھے، ان میں فلسطین شامل نہیں تھا، جبکہ اسرائیل کا نام اس میں شامل تھا۔ کیا یہ سب جان بوجھ کر کیا جارہا ہے؟ کیا جامعہ اس وقت کسی کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے؟ کیا یہاں کے ذمہ داروں نے اپنی سنہری تاریخ بھلا دی ہے؟ کیا ان کو علم نہیں کہ جامعہ کے بانی محمد علی جوہر کی آخری آرام گاہ کس سرزمین پر واقع ہے؟2014 کے ایک دوسرے واقعے میں جامعہ میں ہی منعقدہ ایک تقریب میں مہمان خصوصی دیہی ترقی کے وزیر جئے رام رمیش نے خواہش ظاہر کی کہ وہ ادارے کے بانی مولانا محمد علی کی قبر پر جانا چاہتے ہیں اور سوال کیا کہ ان کی قبر کہاں ہے تو وہاں موجود کوئی بھی ان کے سوال کا کوئی جواب نہ دے سکا، اور جب میں نے انھیں بتایا کہ ان کی قبر فلسطین میں ہے تو کوئی یقین کرنے کو تیار نہ تھا، آخر کار شعبہ تاریخ کے ایک پروفیسر نے گوگل میں دیکھ کر اس کی تصدیق کی۔ 

تین سال قبل 2019 میں بھی اسی مسئلہ کو لیکر طلباء پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے تھے، جس میں 5 اکتوبر کو یونیورسٹی سمینار میں ایک اسرائیلی شخص کی شرکت پر طلبا نے احتجاج کیا تھا۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق مظاہرے کے دوران انتظامیہ کے اشارے پر غنڈہ صفت لوگوں نے پر امن احتجاج کرنے والے طلباء کو پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ مار پیٹ میں کئی طلباء زخمی ہو گئے تھے جنھیں ہولی فیملی ہاسپیٹل میں داخل کرایا گیا تھا۔ احتجاج میں شامل پانچ طلباء کو اس وقت بھی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس معاملے نے معاملہ اتنا طول پکڑا تھا کہ دہلی اقلیتی کمیشن کو سامنے آنا پڑا تھا اور اس نے جامعہ سے پوچھا تھا، ’’کیا جامعہ کے حکام کو بی ڈی ایس نامی بین الاقوامی تحریک کے بارے میں نہیں معلوم ہے، جس کے تحت مشرق و مغرب کی بہت سی یونیورسٹیاں اسرائیل کا بائیکاٹ کرتی ہیں کیونکہ وہ فلسطینیوں کی زمینوں پر قابض ہے اور مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ بدترین سلوک روا رکھتا ہے‘‘۔

یہ سوچنے والی بات ہے کہ حق و انصاف، یکجہتی اور ظلم کے خلاف تاریخ رقم کرنے والا ادارہ کدھر جا رہا ہے اور اس کے بانیان نے جو خواب دیکھا تھا وہ گہن آلود کیوں ہو رہا ہے۔ یاد رکھنا چاہیے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا فلسطینی کاز کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی، یکجہتی اورلازوال انصاف کے لیے غیر متزلزل عزم رہا ہے جو حقیقت میں ایک پائیدار طاقت کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔ یقیناً حالیہ چیلنجوں نے خدشات کو جنم دیا ہے۔ ایسے میں ادارے کے ارباب حل و عقد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بانیان کے اصولوں کو دوبارہ زندہ کریں اوراپنے بصیرت رکھنے والے رہنماؤں کے جذبے کو اپنائیں، جنھوں نے ظلم کی مخالفت اور کمزور وپسماندہ لوگوں کے حقوق کی حمایت کی تھی۔آج جبکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اپنی 103 ویں سالگرہ منا رہی ہے، حق سچائی، اتحاد اور انصاف کے لیے اپنی لگن کا اعادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جامعہ ایک پائیدار میراث کی نشانی ہے، ایک ایسی میراث جس کی جڑیں انصاف کے حصول اور مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے۔ آج بھی اس کی آواز کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنا کہ اس ادارے کے قیام کے وقت تھا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: