ازقلم: وصی میاں خان رازی
____________________
مدارس کے موجودہ نظام میں یہ ماننا پڑے گا کہ جب تک کوئی ایسا آئیڈیل نصاب ونظام بننے کی کوئی صورت نہ ہو جائے جیسا مولانا مودودی نے ” تعلیمات” میں پیش کیا ہے کہ دینی اور عصری نصاب کو الگ الگ نہ پڑھا کر ان کو ایک دوسرے میں اس طرح ضم کر دیا جائے جس طرح جسم میں روح اور دودھ میں پانی مل جایا کرتا ہے تب تک کہ لئے ہمیں خاص کر اپنے ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ان دونوں نصابوں کو الگ ہی مان کر پڑھانا اور برتنا ہوگا، کیونکہ موجودہ حالات نہ تو ہمیں یکجائی کا موقع دیں گے نہ ہمارے پاس ایسے صحیح افراد موجود ہیں جو عصری تعلیم کا اسلامائزیشن امام غزالی رحمہ اللہ وغیرہ کی طرح کرکے دونوں ضرورتوں کو پورا کرنے والا ایک مکمل قابل بخش نظام ونصاب تیار کر سکیں، ابھی ایسے افراد کی فراہمی اور اس کے بعد عملی طور نصاب کی تطبیق دور کی کوڑی نظر آتا ہے خاص کر ہمارے ملک کے سیاق میں۔
لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دونوں نظاموں ونصابوں کو ان کی موجودہ حالت پر پوری طرح برقرار رکھ کر ہم کسی ایک بھی نظام کا مطلوبہ معیار کے لحاظ سے طالب علم تیار نہیں کر سکتے، کیونکہ ہر ایک نظام ( اپنی تکمیلی صورت میں لاگو ہونے کی صورت میں) آپ کی پوری توجہ اور محنت چاہتا ہے، دونوں کشتیوں میں سواری طالب علم کے ذہن کو معجون مرکب بناکر رکھ دے گی، اور ایسے بہت سے سستے معجون کچھ جگہ مہنگے داموں پر بیچے بھی جا رہے ہیں، مجھے معذرت کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بہت سے حضرات فی الحال چل رہے سروے کا فائدہ اٹھاکر روایتی مدارس اور ان کے نظام پر جو تنقید کر رہے ہیں اور مثال میں کچھ ایسے ادارے پیش کر رہے ہیں جو عصری نصاب کو پہلے ہی اپنا چکے ہیں،مجھے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان حضرات نے شاید جوش نقد میں قریب سے ان عصری ودینی تعلیم کے مدارس کا تجزیہ نہیں کیا ہے، بس اتنا ان کے لئے کافی ہو گیا ہے کہ کسی مدرسے میں پہلے سے کچھ "ہندی انگریزی” ٹائپ چیزیں چل رہی ہیں۔ اس قسم کے تعلیمی نظام سے کسی بھی فیلڈ کے واقعی محقق اسکالر یا جید علماء پیدا نہیں ہو رہے ہیں اور نہ ہو سکتے ہیں، ہاں اگر مقصد بس عصری اور دینی کا ٹیگ لگوانا ہے تو یہ نہایت مفید سودا ہے۔
خیر یہ ضمنی بات تھی، میرے عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ دونوں نصاب بھرپور قوت کے ساتھ ایک ساتھ نہیں چل سکتے تو اب اس کا کیا حل ہو؟
اس کا بہترین تسلی بخش حل تو ایک پوری علماء ومفکرین اور ماہرین تعلیم کی ایک جماعت ہی غور و خوض کرکے بتا سکتی ہے، لیکن مفتی تقی عثمانی، ڈاکٹر محمود احمد غازی مولانا مودودی اور مولانا مناظر احسن گیلانی وغیرہ بزرگوں کی کتب اور اپنے مشاہدے و CBSE بورڈ میں سیکنڈری وسینئر سکنڈری میں سوشل سائنسز کی تدریس کے تجربے سے چند موٹی موٹی باتیں اپنی سمجھ میں آتی ہیں:
1)ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ طالب علم حفظ کے ساتھ( عموما فضلاء مدارس حافظ ہوتے ہیں) پرائمری تک کی تعلیم حاصل کریں،اور اس کے بعد کسی ایسے ادارے کو جوائن کرے جس میں 3-4 سال کی مدت میں اسے عصری تعلیم انٹر تک کرا دی جائے، خود ہمارا اسکول اس قسم کا تجرباتی اسکول ہے اور وہاں یہ تجربہ کافی کامیاب رہا ہے کہ پرائمری تک کی تعلیم سے ناواقف حافظ طلبہ کو 12ویں تک 4-5 سال میں دوسرے معیاری عصری اداروں کے برابر یا ان سے بہتر پوزیشن میں طلبہ کو لا کھڑا کیا، اس کے بعد طالب علم خالص عربی تعلیم کے لئے مدارس کا رخ کر سکتا ہے۔
نوٹ: ہمارے اسکول کے دو طلبہ نے ندوہ میں 5 سالہ کورس میں ایڈمشن لیا ہے۔
اس میں طالب علم دسویں کرکے بھی مدرسے میں جا سکتا ہے، اور بارہویں کی صورت میں ہم جیسے اسکولوں کو عربی اور اسلامیات کا سسٹم تھوڑا اور مضبوط کرنا ہوگا، جس سے وہ مدرسے کا آٹھ سالہ نصاب 5-6 سال میں مکمل کر سکے۔
یہ ایسا نظام ہے جو ابھی آسانی کے ساتھ مدارس کے اندرونی نصاب ونظام کو زیادہ چھیڑے بغیر اپنایا جا سکتا ہے اور جزوی طور پر چل بھی رہا ہے، اور دارالعلوم کے دسویں تک کی اہلیت کے اعلان کے بعد اس کے مزید تیز رفتار ہونے کی امید ہے۔
2) لیکن یہ اوپر والا پہلا نظام لانگ ٹرم کے لئے زیادہ مضبوط قسم کے علماء اور صحیح بنیادوں پر عصری سمجھ رکھنے والے مطلوبہ معیار کے داعی اور سکالرز لگاتار اچھی تعداد میں فراہم کر سکے اس میں مجھے بہت زیادہ شبہ ہے، اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو ابھی میں اس مختصر تحریر میں نہیں لکھ سکتا، لیکن ذرا غور کرنے کے بعد وہ اکثر ذی شعور افراد کو سمجھ میں آسکتی ہیں۔
اسی وجہ سے دوسرا نظام زیادہ بہتر نظر آتا ہے جس میں عصری تعلیم اور درس نظامی کو ایک ساتھ بھی چلایا جائے لیکن مکمل شکل میں نہیں، بلکہ ہر ایک میں کچھ قطر بیونت کی جائے، اس میں ہر ایک نظام ونصاب کو کچھ نہ کچھ قربانی دینی ہوگی۔
۔ اب کس نصاب ونظام کو کتنی قربانی دینی ہوگی یہ اہم سوال ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ عصری کے ہی ضروری اجزاء کو لیکر باقی کو ہمیں چھوڑنا پڑے گا، کیونکہ آخر کار خالص عصری اداروں میں دین کی ضروریات سے بھی نابلد پڑھنے والے طلبہ کی آل ریڈی تعداد 90 فیصد سے زائد ہے، تو مدارس کے چند بچے کچے بچوں کی ترجیحات بھی عصری ہو جانا نہ صرف غیر معقول ہے بلکہ یہ دینی تعلیم کے رہے سہیے سسٹم کی بقاء کے لئے بھی خطرناک ہے۔
تقسیم:
ہم پہلے ہی یہ مان چکے ہیں کہ عربی مدرسے کا طالب علم حافظ ہے جو پرائمری تک کی تعلیم لے چکا ہے، اب حفظ وپرائمری کے فورا بعد عربی (درس نظامی) شروع کرتے وقت اس کی بنیادی ہندی، اردو ٹھیک ہے، حساب اور انگریزی کی شناخت ہو چکی ہے، ( بس یہی چار مضمون ہونے چاہئے اس کی پرائمری میں بھی دینیات کے ساتھ) اب اسے اردو اور ہندی پڑھانے کی زیادہ ضرورت نہیں ہے۔
ہاں انگریزی اور میتھ میٹکس میں مزید ترقی کی ضرورت ہے، اس لئے شروع کے تین سالوں میں درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور میتھ کا گھنٹا مستقل لگایا جا سکتا ہے، اس کے لئے جہاں سال دوم سوم سے منطق کی جگہ خالی کی جا سکتی ہیں وہیں اول میں صرف نحو اور تجوید کے گھنٹوں پر غور کیا جا سکتا ہے، ابھی نحو میر کے ساتھ شرح مائہ پوری پڑھائی جاتی ہے اور میزان کے ساتھ پنج گنج۔ آخری دونوں کتب( شرح مائۃ اور پنج گنج) کو ہٹایا جا سکتا ہے، یا شرح مایۃ کے دو تین باب پڑھاکر چھوڑ سکتے ہیں، تجربہ ہے کہ دو باب ڈھنگ سے پڑھنے کے بعد طالب علم خود سے تراکیب پر حاوی ہو جاتا ہے، پنج گنج کی تعلیلات صرف کنفیوژن پیدا کرتی ہیں، علم الصیغہ کافی ہے دوم میں۔
لیکن اگر اسی مکمل نصاب پر اصرار ہے تو گھنٹے 60 منٹ کے بجائے 45 کے کر دیے جائیں کتابیں تب بھی آسانی کے ساتھ مکمل ہو جائیں گی اور بقیہ 90 منٹ میں انگریزی اور میتھ ہو جائیں گے۔
تین سال کے بعد انگریزی اور میتھ دسویں تک کا کور ہو جائے گا ان شاء اللہ، کیونکہ عربی اول میں آٹھویں کی انگریزی اور میتھ طالب علم پڑھے گا، اور تجربہ ہے کہ پرائمری کیا حافظ باآسانی ایسا کر لیتا ہے۔
اب آپ چہارم سے سائنس اور سوشل سائنس شروع کریں، ششم تک آپ 10 ویں کلاس تک کی سائنس اور سوشل سائنس پڑھا دیں گے، سائنس آٹھویں جماعت کی شروع کریں،اور چہارم میں میتھ کو ختم کر دیں، ششم میں جاکر دسویں تک کی سائنس ( انگریزی میڈیم میں ہونی چاہئے یہ بھی) ختم کر دیں۔ اب سائنس آگے نہ پڑھائیں۔
یہاں NIOUS کا دسویں کا سرٹیفیکیٹ دلایا جا سکتا ہے۔
اب آخر کے دو سالوں میں آپ درس نظامی کے ساتھ صرف سوشل سائنس پڑھائیں بارہویں تک کی۔ اس کے لئے موجودہ فلسفہ کی کتب نکال دیں، کیونکہ سوشل سائنس ( پولیٹیکل سائنس، جغرافیہ، تاریخ نفسیات اور اقتصادیات) یہ سب فلسفہ کے ہی بچے ہیں، بڑی جماعتوں میں پیرئیڈ بھی بڑھائے جا سکتے ہیں اور سوشل سائنس کے مذکورہ چار میں سے دو سبجیکٹ ہر طالب علم کے لئے ضروری قرار دئے جائیں۔
اس طرح دورے تک طالب علم انگریزی، ضروری میتھ اور سوشل سائنس کا علم رکھتا ہوگا، یہاں پر اسے NIOUS سے علوم انسانی (Humanities ) میں انٹر کا امتحان دلواکر سرٹیفیکیٹ دلوا دیا جائے۔
ان معروضات سے یہ معلوم ہو گیا ہوگا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ مدارس مکمل عصری نظام کو لیکر نہیں چل سکتے، وہ صرف اس کے کچھ ہی حصے کو لے سکتے ہیں، اب وہ حصہ کیا ہو، اس دو میں سے ایک بات ہوسکتی ہے یا تو سائنس یا آرٹ اور انسانی علوم۔
ان میں سائنس کے علوم ( میڈیکل انجینئرنگ) ان کے لئے زیادہ وسائل اور زیادہ محنت وتوجہ کی ضرورت ہے، مختلف موضوعات فزکس ، کیمسٹری،بایولوجی کی لیبارٹری، ماہر اعلی درجے کے اساتذہ، بھرپور ذہنی محنت چاہئے اور آخر میں یہ علوم مدرسے کے طالب علم کو اس کی عربی دینی تعلیم میں زیادہ مدد بھی نہیں کریں گے، اگر وہ کسی طرح ان کا حق ادا کرتے ہوئے پڑھ بھی لے تو۔
جبکہ سوشل سائنس کے علوم طالب علم کو نہ صرف اپنے آس پاس سے باخبر بنائیں گے بلکہ وہ اس کو اپنے عربی علوم میں بھی کافی معاون ہوں گے اور مدرسے کا مقصد بھی پورا ہوگا کہ ان علوم کو پڑھ کر ملک کے حالات کو سمجھنے والے،عصری زبان ( انگریزی)میں گفتگو کر سکنے والے، مختلف ازم اور افکار اور آئیڈیالوجیز ( لبرلزم، فیمنزم، مارکسزم، کیپٹلزم ڈائزم وغیرہ) کو سمجھ کر ان کا انٹیلیکچوئل سطح پر جواب دینے والے داعی اور مبلغین ومفکرین اور قلم کار تیار ہو سکیں گے، جو دور جدید کی کج فکری کی جڑ پکڑ کر اس کا علاج اسی انداز اور زبان میں کریں گے جو اس فکر کے حاملین کو آتی ہے، آپ سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سماج ملک اور قوم میں انقلاب فکری سطح پر پہلے آتا ہے، اور اس کو لانے اور برپا کرنے والے لوگ سماجی اور سیاسی علوم کے ماہرین،مفکرین اور فلاسفہ ہی ہوتے ہیں، نہ کہ خالص ٹیکنولوجی اور سائنس کے خشک میدان کے کھلاڑی۔
ہمارے ملک کا تھنک ٹینک بھی سول آفیسر ہی ہوتے ہیں جو انہیں سماجی علوم کو "چاٹ” کر نظام کو سنبھالتے ہیں۔
مدارس کے لئے یہی بہت بڑا قدم ہوگا کہ وہ ملک وقوم کو اعلی اخلاق وکردار کے سول آفیسرز، دانشور قلمکار، بہترین مبلغین مقررین اور مفکرین فراہم کرنے میں اپنا رول ادا کر سکے۔
اب اگر کوئی سائنس ہی کو سب کچھ مان کر اس میں مہارت کا مطالبہ مدراس سے کرے اور کہے کہ اس کے بغیر مدارس "بیکار” ہیں تو اس سے سوال کیا جا سکتا ہے تب تو تمام ہی یونیورسٹیز سے انسانی علوم اور آرٹ کو ہٹا دیا جائے، خاص کر ملک کی اعلی معیاری یونیورسٹی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی JNU تو شاید بیکار ہی ہے کہ اس کے اندر سے ڈاکٹر انجینئر کچھ نہیں نکلتے بلکہ زبان،سوشل سائنس کے ماہرین مفکرین ہی نکلتے ہیں۔اور یہی اس کا طرہ امتیاز ہے۔
مدارس سوشل سائنس کے ذریعے اس کی الحاد کے اوپر مبنی اجزا کے اثرات کو بھی کم کر سکتے ہیں کہ مسلم طلبہ میں انہیں کے رستے الحادی لبرل خیالات در آتے ہیں، تخصصات میں جدید فلسفہ، نفسیات، سماجیات، سیاسیات، تاریخ، اقتصادیات اور دیگر اس قسم کے شعبوں کو قائم کیا جا سکتا ہے، اور یقین مانیے تجربے سے بتا رہا ہوں کہ زبان کی رکاوٹ اگر دور ہو جائے تو ایک درس نظامی کا فاضل ان علوم کو الحمد للہ کسی بھی خالص عصری علوم کے مقابلے میں بہتر پڑھا سکتا ہے۔ بس تھوڑے مطالعے، ہمت اور استقامت کی ضرورت ہے۔