از قلم: محمد عمر فراہی
بھارتی جمہوریت اور اس کے انتخابات میں چوہے بلی کا کھیل 1947کی آزادی میں شامل پہلی صف کے لیڈران کے گزر جانےکے بعد سے ہی شروع ہو چکا تھا ۔یعنی جمہوریت ابھی پوری طرح بالغ بھی نہیں ہو پائی تھی کہ جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا جیسے لیڈران کو سماج واد کے نام سے سیاسی تبدیلی کا نعرہ بلند کرنا پڑا ۔جنتا پارٹی کی قیادت میں یہ تبدیلی آئی بھی لیکن یہ تبدیلی بھی وقتی ہی رہی اور اندراگاندھی پھر سے ایک طاقتور لیڈر کے طور پر اقتدار پر قابض ہو گئیں ۔اندراگاندھی کے بعد پھر جنتا دل اور بے جے پی کے ذریعے ایک اور تبدیلی تو آئی لیکن کانگریس راجیو گاندھی کی موت کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ ان تبدیلیوں سے نہ تو ملک کا عدالتی نظام مضبوط ہوا اور نہ ہی بھارت نے کسی میدان میں کوئی خاص ترقی کی مگر ترقی کے نام پر جو کام ہوۓ بھی تو ملک قرضوں میں ڈوبتا چلا گیا اور سیاستداں امیر ہوتے چلے گیے ۔
جہاں تک مسلمانوں کی بات ہے ان کے قائدین یا اکابرین نے اس نظام جمہوریت سے جس بہتری کی امید کی تھی بہت جلد ان کے ذہنوں سے یہ خمار بھی اتر گیا ۔ مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر وہ حالات کو نا سمجھنے کی غلطی کا کھلے عام اعتراف کرتے تو فتنہ پھیلنے کا اندیشہ تھا جیسا کہ خود مرحوم ابوالکلام آزاد صاحب نے اپنی کتاب بھارت نے آزادی کی جنگ جیت لی کے کچھ اہم صفحات پر اپنے کئے گئے تبصرے کو اسی خوف سے اپنی زندگی میں شائع نہ کرنے کی وصیت کر دی تھی ۔ابوالکلام آزاد بھی انسان تھے اور وہ اپنی زندگی میں ہی خود کو سمجھ چکے تھے کہ نئے بھارت میں اپ وہ کیا ہیں اور ان کا قد کیا ہے مگر چونکہ ہندوستان کا مسلمان ایک زمانے سے شرکیہ ماحول کا پروردہ رہا ہے اس لئے اس کے ذہن پر جو شخصیت پرستی اور تقلیدی مزاج کا خمار غالب ہے وہ اپنے اکابرین کے غلط کو صحیح اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں آج بھی مصروف ہے ۔کچھ لوگ جن پر حقیقت آشکار ہو چکی تھی انہوں نے اس لئے بھی بہت سی سچائی کو اجاگر کرنا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ بھارتی مسلمانوں کے پاس اس کے سوا کوئی دوسرا متبادل بھی نہیں تھا کہ وہ خود بھی اس چوہے بلی کے کھیل سے لطف اندوز ہوتے ہوۓ اپنے حق میں کسی آسمانی کرشمے کا انتظار کرے ۔لیکن کرشمے بھی اسی وقت ظاہر ہوتے ہیں جب کوئی قوم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوۓ اپنے رب کی مغفرت کی طلب گار ہو !
یوں تو آزادی کے دور کی بہت سی باتیں مجھے اپنے نانا مرحوم سے بھی معلوم ہوا کرتی تھیں جو پچیس سال پہلے سو سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوۓ اور خود علامہ فراہی نے بھی اس وقت کی مسلم قیادت کے غلط رخ کا تذکرہ کیا ہے اس کے علاوہ بہار شریف کے ہمارے ایک بزرگ دوست جن کے والد آزاد صاحب کے ساتھیوں میں تھے اور وہ خود آزاد صاحب کے جنازے میں شریک رہے ہیں بہت ساری باتیں بتا کر افسوس کرتے ہیں ۔چونکہ ان کے والد تحریک آزادی میں سرگرم علماء دین کے ساتھیوں میں سے تھے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ مرحوم سید بخاری سے لیکر اسد مدنی ،علی میاں ندوی اور یوسف کاندھلوی ، صاحبان وغیرہ کی محفلوں میں انہیں شریک ہونے کا موقع حاصل رہا ہے اور وہ ان سے بے جھجھک سوالات بھی پوچھا کرتے تھے ۔کچھ باتیں عام محفلوں میں بولنے اور لکھنے کی نہیں ہوتی لیکن وہ اپنی ذاتی گفتگو کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ہمارے اکابرین کو یہ اعتراف تھا کہ ان کے ساتھ اندلس کے علماء کی طرح اپریل پھول جیسا معاملہ ہوا ہے مگر اب جو ہم سب سے بڑی غلطی کر رہے ہیں وہ یہ کہ ہم نے ان کے غلط فیصلوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی ملت اسلامیہ ہند کی فلاح و بہبود اور تحفظ کی کوئی حکمت عملی تیار کر سکے ۔مسلمانوں کے جو لیڈران اسمبلیوں اور پارلیمنٹوں کیلئے منتخب ہوۓ انہوں نے بھی سواۓ اپنی دولت اور جائیداد بنانے کے قومی مفاد میں کچھ نہیں کیا ۔
ویسے جو نظام ہمارے ملک میں رائج ہے اس نظام کی بے ضابطگی کی وجہ سے جس طرح کے لوگ اسمبلیوں اور پارلیمنٹون کیلئے منتخب ہو رہے ہیں اور ملک جس طرح بیرونی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے اب اس نظام کو نہ تو کسی سماج واد اور راشٹرواد سے تبدیل کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی ہمیں مقروض کرنے والے عالمی مہاجن کسی جئے پرکاش اور گاندھی کی قیادت میں کسی نئے طرز کی سیاسی تبدیلی کی اجازت دے سکتے ہیں ۔
ہاں جیسے کہ ہم کچھ ریاستوں میں سیکولر پارٹیوں کی جیت اور بی جے پی کی ہار سے خوش ہو جاتے ہیں اگر 2024 میں بی جے پی مرکزی انتخابات میں ہار جاتی ہے اور مرکز میں کوئی سیکولر اتحاد حکومت بنا بھی لیتا ہے تو بھی مسلمانوں کا اسی طرح کوئی بھلا نہیں ہونے والا جیسا کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے مرکز میں سیکولر اتحادیوں کی حکومت میں ان کو ہر مشکلات سے گزرنا پڑا ہے ۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی تبدیلی کے حق میں نہیں ہیں ۔تبدیلی تو ضرور آۓ گی اور یہ تبدیلی ہندو ووٹر ہی لاۓ گا لیکن اس تبدیلی سے بہت امیدیں وابستہ کرنا فضول ہے اور بی جے پی کی شکست سے ہمیں یہ بھی گمان نہیں ہونا چاہیے کہ بھارت میں بھائی چارہ مضبوط ہورہا ہے ۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ لوگ کسی اللہ اور بھگوان کی عبادت اور پوجا بھی کسی مفاد کے تحت ہی کرتے ہیں ۔جن کے یہاں آسمانی کتابیں محفوظ ہیں ان کا اعتقاد ہے کہ مرنے کے بعد انہیں جنت اور خوبصورت حوریں ملیں گی مگر کچھ لوگ اپنے بھگوان کی پرستش صرف اپنی دنیا کو خوبصورت اور خوشنما بنانے کیلئے کرتے ہیں ۔اب آپ سوچیں اگر یہی روزی روزگار کے وسائل اسے کسی تیسری طاقت یعنی جدید سامری کے ذریعے میسر ہو جاۓ تو وہ کیوں نہ اسے اپنا خدا تسلیم کر لے ؟
آج اقوام عالم کے درمیان ایک تیسرا مذہب انسان کے اپنے نفس اور مادہ پرستی کا ہے اور اس کی نمائندگی جدید مہاجن اور کارپوریٹ جگت بہت ہی خوبصورت انداز میں کر رہا ہے ۔کہتے ہیں کہ بھوک تہذیب کے آداب سکھا دیتی ہے ۔بھوک لوگوں کو خدا اور مذہب سے بھی بیزار کر دیتی ہے ۔یہی وہ مادہ پرستی اور بھوک کی آگ ہے جس میں نہ صرف اہل ایمان کی اکثریت بھی مبتلا ہو کر اپنے اصل دین سے غافل ہے یہی بھوک ایک دن بھارت کی عوام کو مودی اور بے جے پی سے بھی بیزار کر سکتی ہے ۔مجھے یقین ہے کہ اگر مودی اور بے جے پی کسی طرح اپنی عوام کو خوشحال کر سکے تو مسلمان لاکھ متحد ہو جائیں وہ اس حکومت کو کبھی بے دخل نہیں کر سکتے اور مادہ پرست قوموں کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ملک کا نظام سیکولر ہو کہ سوشلسٹ یا ہندو راشٹر مگر انہیں عیش و عشرت کا سامان مہیا ہونا چاہئے !
ان حالات میں مسلمانوں کے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ اپنی نسلوں کی دینی اور اخلاقی بیداری کے ذریعے مسلم معاشرے میں در آئی خرابیوں اور خرافات پر قابو پانے کی کوشش کریں ورنہ قومیں جب غیر محفوظ ہو کر انتشار کا شکار ہوتی ہیں یا انہیں تحفظ کا مسئلہ درکار ہوتا ہے تو کمزور ایمان والوں کا فتنہ ارتداد میں مبتلا ہونا لازمی ہے اور ضروری نہیں کہ لوگ براہ راست اپنا مذہب ہی تبدیل کرلیں لیکن وہ کفر اور شرک کی سرحد کے اتنے قریب پہنچ چکے ہوتے ہیں کہ ان کے لئے کبھی بھی اپنے ایمان سے بغاوت کرنا مشکل نہیں ہوتا ۔برصغیر میں بہت سی لبرل شکلوں میں یہ نظارہ دیکھا بھی جاسکتا ہے ۔